1,350

سید اعظم شاہ کا محمد جاوید انور کے افسانوی مجموعوں پر تبصرہ

جاوید انور صاحب کے دونوں افسانوی مجموعوں ” برگد ” اور ” سرکتے راستے ” کا مطالعہ کرچکا ہوں ۔ گذشتہ رات ” سرکتے راستے ” کا آخری افسانہ پڑھا تو خیال گُزرا کہ وہ جو کہتے ہیں کہانی کہیں نہیں ہے، غلط کہتے ہیں۔ ہنسی آتی ہے جب ایک طرف غازیانِ جدیدیت اور مابعدِ جدیدیت کسی ماورا جہاں میں تجرید اور علامت کے لایعنی گھوڑے دوڑاتے ہیں تو دوسری طرف جاوید انور صاحب جیسے پُختہ تخلیق کار اکہری حقیقت نگاری کے ذریعے افسانے کو ” انسانی ” مسئلہ بنا کر کچھ ایسے سلیقے سے پیش کرتے ہیں کہ قاری بے اختیار پکار اُٹھتا ہے۔
” یہ ہوتا ہے اسلوب، یہ ہوتی ہے افسانوی زبان! “.
سچ پُوچھیے تو ان کا قلم جب ورق ورق الفاظ کے موتی بکھیرتا ہے تو پڑھنے والا ان موتیوں کو چُنتے ہوئے تخلیقیت کا لامُتناہی سرور محسوس کرتا ہے ۔ تب اس کا یقین مستحکم ہونے لگتا ہے کہ جناب جاوید انور اور افسانے کا ساتھ ” نیا ” نہیں بلکہ ” صدیوں ” پرانا ہے ۔ کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ وہ اس میدان میں نووارد ہیں ۔ مجھے ایک” کمینی ” سی خوشی محسوس ہے جب وہ افسانوی ادب میں ہونے والے نت نئے تجربات سے بے زار ہوکر ماضی کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور پنجاب کی دیہی زندگی کے بحرِ بے کراں سے متعدد گوہرِ نایاب چُن کر سُخن وران کو ایک طرح سے باور کراتے ہیں کہ افسانوی ادب میں بہت سی کہانیاں لکھنے سے رہ گئی ہیں ۔ یوں لگتا ہے وہ افسانے کو شاعرانہ، فسلسفیانہ اور ” پہیلیانہ ” سطح پر تختہ مشق بنانے کی حوصلہ شکنی کرکے اسے اُسی دائرے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جس میں کہانی کا موضوع اسی سیارے پر بسنے والے جیتے جاگتے ” انسان ” اور ان کی روزمرہ زندگی سے جُڑے قصے ہیں ۔ آپ ” برگد ” پڑھیں تو اُن کا فن جوبن پر نظر آتا ہے ۔ مجھے بھی لگا شاید یہ اُن کا پہلا اور آخری ” شہکار ” افسانہ ہو ۔ مگر جب میں نے ” بھِڑ ” پڑھا تو اور بھی لذت کشید کی اور یہ سلسلہ ” نیرنگی”، ” مہربانی ” ، ” شیر “، کُشتی”، ” بارِزیست ” ” دروازہ”، ” آخری گجرا” اور ” بُھٹی ” تک طویل سے طویل تر ہوتا گیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ان افسانوی بھول بھلیوں میں ” سرکتے راستے” لکھ کر علمائے جدیدیت کو بُری طرح جھنجھوڑا کہ علامت و تجرید میں طبع آزمائی اتنی بھی کٹھن نہیں جتنی ہمارے ” فیس بُکی ” ناقدین نے بنادی ہے ۔ اور پھر ان کے ہاں ” نارسائی ،” اُجلے پاؤں ،میلے پاؤں” ، اور ” بادل ” جیسے تجربات بھی ملتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ” فیک”، ” شارقہ” اور ٰ” ڈیبیٹ ” جیسے افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے موضوعاتی تنوع اور عصری گہما گہمی کی طرف بالکل بھی پشت نہیں کررکھی تاہم اُن کی اصل ترجیح شاید اُسی ڈومین میں رہنا ہے جو اُنہیں کلاسیکی چاشنی کے قریب تر رکھتا ہے ۔
کم از کم میں تو اب ان کا مستقل قاری بن گیا ہوں ۔ جاوید صاحب کی یہ دونوں کتابیں مجھے بہت پہلے موصول ہوگئی تھیں مگر چونکہ میری کوشش ہوتی ہے کہ فیس بک پر ” رسیدیں ” اور ٹائٹل شئیر کرنے کے بجائے کتابوں کا مطالعہ کیا جائے _ اور سیکھا جائے لہذا خاموشی سے اُن کا قاری بنا رہا ۔ مجھے اور بھی کئی دوستوں کی کتابیں موصول ہوئی ہیں جن کا مطالعہ جاری ہے ۔
جاوید صاحب کی تخلیقات پر یہ میرے ہلکے پھلکے تاثرات ہیں ۔ کوشش کروں گا ایک قاری کی حیثیت سے ان پر مضمون بھی لکھوں ۔ دیکھیں، کامیابی ملتی ہے یا نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔
سید اعظم شاہ

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں