جلدی جلدی کتاب پڑھ کر سر سے بلا ٹالنے کا کام مجھ سے نہیں ہوتا ۔ لفظ لفظ محسوس کرنا ، جملوں کی روح میں اترنا ، خود کو مناظر کا حصہ سمجھنا ، کرداروں سے روبرو کلام کرنا اور پھر تحریر کے خلق کا مقصد سمجھنا ۔۔۔۔۔ یہ سب نہ ہو تو پڑھنا بےکار ہے۔ اس بےکار پڑھنے سے بہتر ہے کہ “اس خاص وقت ” کا تحمل کے ساتھ انتظار کر لیا جائے ۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب مصروفیت کی تیزی سے رواں گاڑی نے سکون و راحت کے سٹیشن پر بریک لگاۓ تو دل نے اس سکون کو مزید گہرا کرنے کا مطالبہ کیا ۔ دھیان فوراً سائیڈ ٹیبل پر سجی کتابوں کی طرف گیا ۔ پہلی نظر میں قرعہ سر جاوید انور کی “سرکتے راستے” کے نام نکلا ۔ لو جی ، کتاب کھولتے ہی میں” سرکتے راستے” کی دنیا میں پہنچ گئی ۔ اُف ۔۔۔ اس قدر خوبصورتی کہ کیا بتاؤں ۔ “سرکتے راستے” کے سبھی راستے اتنے سرکنے تھے کہ مجھے سرکاۓ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے چلے ۔۔۔ کبھی گاؤں ، کبھی شہر ، کبھی چاۓ خانہ ، کبھی اینٹوں کے بھٹے ، تو کبھی جانوروں کے باڑے میں ، کبھی جنگل اور کبھی صحرا ۔ غرض جو بھی مقام آیا جزئیات نگاری نے ہر منظر اتنا واضح کر دیا کہ ہر رنگ جدا جدا اور صاف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ ایسا لگا کہ میں اس ماحول میں نہیں گئی بلکہ وہ پورا منظر چل کر میری آنکھوں کے سامنے آ سجا ہے ۔ جہاں میری آنکھوں نے رنگ برنگے مناظر دیکھے وہیں انواع و اقسام کے کردار بھی مجھے سرکتے راستوں پر ملے ۔
ہر روز چاۓ خانہ کے “دروازہ ” سے گزرتا وحید ارشد ،
“سرکتے راستے” کی مسافر لڑکی ،
“ایک عجیب لڑکی” نرمین ،
“معمولی” واقعے کو غیر معمولی بنانے والا ماڈرن صوفی ،
“زندگی اے زندگی” پکارتے شرجیل اور اس کی محبوبہ،
“بار زیست” سے الجھتا عبدالله ،
اپنے مرشد دوست کی تقلید کرتا اللہ داد ،
” نظرِ بد ” کا شکار ہونے والی دلیر ، خود اعتماد اور چلبلی عروج ،
“فیک” آئ ڈی والی صبا اسماعیل ،
نذیر نائی پر “مہربانی” کرتا اللہ بخش نمبر دار،
“اجلے پاؤں ،میلے پاؤں ” والی سیماں ،
“کوئی پتھر “سے مارو چلاتی نو آموز ادیبہ ،
“نیرنگی” کا شکار شگفتہ اور منظور ۔ یہ سب کردار اتنے اصلی اور جیتے جاگتے ہیں جیسے جاوید انور صاحب ان سب سے ذاتی طور پر مل چکے ہیں ۔
اگر جاوید انور صاحب کے اسلوب کی بات کریں تو کہیں کہیں مجھے Aesopian technique نظر آئ ۔ دردمند دل رکھنے والا ہر انسان دوسرے انسان کو اپنے ہاتھ اور زبان ( الفاظ ) سے تکلیف دینے سے گریز کرتا ہے اسی لئے آپ نے کہیں کہیں انسانی معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی fables کی صورت میں کی ہے جیسے “مہا بندر” اور “سرکتے راستے” ۔ یہ اسلوب قابلِ ستائش ہے ۔ دوسری چیز جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ بات کہنے کا ڈھنگ ہے ۔ جاوید انور صاحب چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہنے کا فن جانتے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب ایسے خوبصورت جملوں سے بھری پڑی ہے جن کی لمبائی بہت مختصر لیکن گیرائی بے حساب ہے ۔ اس کے علاوہ کتاب کا ٹائٹل اور کاغذ بہت عمدہ ہے ۔ جہاں اتنی چیزوں کا ذکر ہوا وہاں سر جمیل احمد عدیل کے خوبصورت تبصرے کا ذکر نہ کرنا بہت نا انصافی ہے جس نے “سرکتے راستے” کے حسن کو چار چاند لگا دئے ہیں ۔
میری طرف سے سر جاوید انور کو ان کی خوبصورت تخلیق پر بہت بہت مبارکباد
1,323