135

محمد جاوید انور کے افسانے

محمد جاوید انور کے افسانے

برگد اور سرکتے راستے افسانوں کے دو ایسے مجموعے ہیں جن کی اشاعت میں صرف ایک سال کا وقفہ ہے لیکن دونوں کی فضا۔زبان۔احساسات اور کرافٹ میں کافی تضاد ہے۔لگتا ہے دو مختلف لوگوں نے انہیں تخلیق کیا ہے۔ایک وہ جو جذبات کی تمازت۔مزاج کی شگفتگی ۔نوجوانی کی چونچالی اور شخصی جستجو کے سارے اوصاف رکھتا ہے اور زندگی کو کامیاب ۔پُر مسرت اور بامعنی بنانے کے باوجود کہیں اندر ہی اندر ایک تصوراتی رومانس اور دل زدگی کے حادثے سے دوچار  ہے۔اُسے معاشرتی اونچ نیچ اور مصنوعی روایات کی موجودگی کبھی بغاوت پر آمادہ نہیں کرتی اور وہ پرانی داستانوں میں بہت سارے شیطانوں کی موجودگی میں بھی چاندنی سے اُجلے خواب جمع کرتا اور زندگی کے طور اطوار کے برگد کو اپنی جگہ قائم دائم دیکھنا چاہتا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ان افسانوں کی غلام بی بی اپنے نام کی طرح محبت حُسن اور آزادی کے آسیب کی موجودگی میں گاما مراثن کے نام سے ہی

 پہچانی جاتی ہے کبھی ملکہ  رانی یا شہزادی کا منصب حاصل نہیں کر سکتی۔اس کے حسن کی آگ اخِرِکار اسے ہی جلا کر راکھ کر ڈالتی ہےاورنجیب الطرفین وڈیروں کا صاحب زادہ اچھو  ایسی کئی غلام بیبیوں کے دل پر پاؤں رکھ کر گذر جاتا ہے ۔ غلام بی بی کا باپ بہت سے گواہوں کے باوجود خودکشی اور قتل کے طریقہء واردات کے مابین معمہ بن جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ برگد کے آسیب کی بھینٹ چڑھ گیا۔گاوں کا چوہدری ایک دن یہ برگد بھی بیچ کھاتا ہے

مجموعے کی زیادہ تر کہانیاں آخری گجرا۔بھٹی۔شیر۔ںرگد۔ دشتِ وحشت ۔  دیہاتی پس منظر کی منافقانہ روایتوں اور نِچلے طبقے کی نیم آسودہ زندگیوں سے اٹھائی گئی ہیں ان کے کردار کوئی لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں۔ ان میں ہلکی سی یاسیت کے ساتھ استہزاء کا پہلو بھی موجود ہے۔کچھ کہانیاں مصنف کے زمانہء طالب علمی کی یاد تازہ کرتی ہیں ۔ کچھ سرکاری ملازمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کی جھلک دکھاتی ہیں

ایک کہانی جس نے مجھے زیادہ متاثر کیا ہے وہ کھوئی ہوئی محبت کا ایک ناسٹلجیا ہے۔ کہانی میں ایک خوابناک فضا کے ساتھ ساتھ ایک شاعرانہ اسرار ہے۔واحد متکلم اپنی محبوبہ کی قبر پر حاضری کے لئے کھڑا ہے ۔اس اثنا میں پرانی زندگی اور اُسکی وارفتگیاں  ہیرو کا گھیراؤ کرتی ہیں اور وہ اپنی محبوبہ کی غائبانہ موجودگی ۔بے نیازی۔ تمکنت اور بے اعتنائی کو حاضر جاننے لگتا ہے ۔ یہ سحر انگیز فضا قاری کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے

۔۔۔۔۔۔کوئی ذی روح نہیں تھا اس وسیع و عریض مقامِ وحشت پر۔بس ہم دو تھے اور لامتناہی پھیلاؤ کا مظہر گہرا سکوت۔۔۔

ایسا سکوت جو ہمیں تحلیل کرکے خود میں جذب کر لینے پر قادر تھا

کائنات رکی ہوئی۔وقت تھما ہوا۔اسمان جھکا ہوا۔متوجہ اور زمین و مکان ساکت

ہر گاہ گہری گمبھیر خاموشی

میرا ورود اس متعین وسیع کینوس میں بے اثر و بے معنی تھا یا شاید وہ لاعلم تھی۔۔۔۔اپنی ہی سوچوں کے گرداب میں غرق۔۔۔۔۔اپنی ذات میں مشغول۔۔۔۔۔پھر ایک زمانے کے بعد سکوت مرتعش ہوا۔۔فضا گنگنا اٹھی

بالآخر آپ پہنچ ہی گئے یہاں۔۔۔۔۔

اسے پتہ چل چکا تھا کہ میں بھٹکتا بھٹکتا قرنوں کی گردش کا اسیر۔۔اس کے سیارے پر آ پہنچا تھا

یہیں سے ایک داخلی مونولاگ شروع ہوتا ہے۔۔خود ہی طالب خود ہی مطلوب۔۔۔۔ پرانی زندگی اور زمانوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے رومانوی یاسیت کے تجربے میں مشغول ہیرو تیسرا آسمان چُھو آیا ہے۔صدیاں گذر گئ ہیں مکالمہ اور موجودگی جاری ہے

افسانے کا کلائمکس ہوتا ہے

جھاڑ جھنکار ہٹاتے  بچتے بچاتے۔لمبی خودرو گھاس کو روندتے وہ مجھ تک ا پہنچا

بابو جی۔۔۔۔باجی کہہ رہی ہیں میں تھک گئی ہوں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے۔۔۔۔جہاز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔۔۔۔فاتحہ پڑھ لی تو اب آ جائیں

اس دلنشیں۔ پُراثر اور غمزدہ کہانی سے گریز کرتے ہوئے ہم مصنف کے دوسرے افسانوی مجموعے سِرکتے راستے تک پہنچتے ہیں،

دروازہ۔سرکتے راستے۔زندگی اے زندگی۔معمولی۔عجیب لڑکی۔ بادل۔  تقلید ۔مہربانی۔ مہا بندر۔اجلے پاؤں میلے پاوں۔بارِ زیست۔ تعفن کوئی پتھر۔نظرِ بد اور نیرنگی سب مختصر کہانیاں ہیں۔ان کا اظہار سیدھا سادا اور تکنیکی پیش بندیوں سے عاری ہے۔لگتا ہے مصنف کسی تیز گاڑی پر سوار ہے اور کئی ادھورے منظر اسکی آنکھوں کے سامنے سے گذر رہے ہیں وہ ان مناظر کے بھی بہت کم حصے یاد رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ایک سرسری سی

 زندگی  اور طائرانہ سے تجربے ۔۔۔اسے اصلی اور نقلی چیزوں اور انسانوں میں تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ایک افسانے میں اس نے نخست مثال کرداروں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح مہا بندر کی تمثیل کو معاشرتی اور سیاسی منظر ناموں پر پھیلایا ہے اور جان گیا ہے کہ مزاحمت کی اس جنگ میں آپ کچھ بھی بن جائیں آپ کو اپنا جنگل اور قبیلہ چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔۔اس افسانے کو پڑھتے ہوئے مجھے جارج آرویل کا اینیمل فارم یاد اگیا۔خاص طور پر بندروں کی ہجرت اور انسانی ابادی میں رہائش کا منصوبہ اس افسانے میں اس فقرے پر ختم ہوتا ہے

۔۔۔۔انسانی ابادی میں دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

جانوروں کی تمثیل اور علامت کے کچھ تجربے ہمیں محمد جاوید انور کی شاعری میں بھی ملتے ہیں

گاؤں سے شہر کی جانب سرکتی ہوئی زندگی بدذائقہ اور میلی سی ہے۔ یہیں  پتھیاروں کی بستی میں اینٹیں بناتی اور بھٹے کی دھواں کی سرمئی فضا میں جوان ہوتی ایک میلی سی لڑکی کے اجلے سے پاؤں مصنف کے تصور ِ حسن اور رومان کو نئے سِرے سے مہمیز لگاتے

 ہیں  وہ لاشعوری طور پر اس لڑکی کے شفاف اور خوبصورت پیروں کا اپنی مال و دولت میں دھنسی کراہت آمیز بیوی کے بدصورت پیروں سے موازنہ کرتا ہے اور پھر  کسی بھی زمانہ ساز آدمی کی طرح اس  تقابل کو  اپنا واہمہ سمجھ کر جھٹک دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے

محمد جاوید انور نے نہایت مختصر افسانچے لکھنے کا تجربہ کرتے ہوئے انہیں  مائیکروفکشن کا نام دیا ہے چند سطری افسانوں میں سے ایک یہاں درج کیا جاتا ہے

۔۔دوسرا کتا۔۔۔

ٹھنڈے میٹھے پانی کے ایک کنوئیں میں کتا گر گیا

کچھ سیانے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بری بات ہے ۔کتنا اچھا کنواں تھا۔۔اس کا کچھ سوچا جائے

پھر بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ کنوئیں میں گرے کتے کو دوسرے کتے سے بدل لیا جائے۔۔۔۔۔

محمد جاوید انور نے اپنی ملازمت کے دوران گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔وہ خالص اور شفاف پانی کے کنوئیں اور بوسیدہ نظام کے سب کتوں اور ان کے اوصافِ حمیدہ سے بھی واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ پالیسی ساز نہ تو انسانوں کو آزادی دینے کے حق میں ہیں نا ہی بنیادی ضروریات کی فراہمی پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔۔زمین پیروں تلے جتنی بھی سِرک جائے انسان اپنے دائرے کے اسیر رہتے ہیں اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔جیسا صدیوں سے چلا آرہا ہے

حسبِ روایت یہ دونوں کتابیں بھی لاہور سے خوبصورت سرورق اور قیمتی کاغذ کے ساتھ خالد شریف نے ماوراء پبلیکیشنز کے زیر ِ اہتمام ہی شائع کی ہیں۔۔

ڈاکٹر شاہین مفتی23جون2023

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں