افسانوں کے مجموعہ ” برگد” میں شامل افسانہ ” بھٹی” پر نامور مصنف اور سینئیر سول سرونٹ جناب حمید رازی صاحب کا تبصرہ۔
“جاوید انور صاحب کے افسانوی مجموعے “برگد” میں شامل افسانہ “بھٹی” اس عہد کی کہانی ہے جب “گاوں میں ابھی ذیل داروں کے گھر ہی میں ہینڈ پمپ لگا تھا” ابھی نئ تہذیب کے خدوخال ابھرنا شروع ہوے تھے،لیکن جاگیردارانہ سماج کو بدلتی تہزیب سے کیا لینا دینا. وہ تو اپنے رنگ ڈھنگ پہ قائم دائم رہتا ہے.
محمد علی ماشکی اور چھیداں ماچھن پانی اور آگ کے کاروبار میں مگن تھے.” محمد علی کے کام کی افادیت کے پیش نظر اسے بہشتی کا نام بھی دیا جاتا. فی الحقیقت محمد علی کا مشکیزہ پانی نہیں زندگی بانٹتا پھرتا. زندگی بانٹنے والے کو بہشتی ہی ہونا چاہیے..”
جاوید صاحب کا مشاہدہ بہت ڈونگھا ہے ایسے لگتا ہے جیسے محمد علی کے کام کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے اس سے اپنے سامنے کئی بار ریہرسل کروائی ہو…
جاگیر دارانہ نظام میں سلامت کا خوبصورت اور خواندہ ہونا اور اس عہد میں سائکل کا مالک ہونا کب وارا کھاتا ہے، کمی کمینوں کا منڈا اور یہ خوبیاں؟
پھر وہی ہوا “بھٹی سے گھٹی گھٹی چیخیں اور دلدوز آہیں نکلیں. دھواں اور آگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہر خوشبو پر غالب آگئی اور پورے گاوں پر سوگ پھیل گیا”…………….. حمید رازی