تنقیدی مقالہ ” جاوید انور۔ دا بیوروکریٹ دا رائیٹر اینڈ دا مِسنگ لنک”۔
از
فارحہ ارشد
فارحہ ارشد اردو کی معروف افسانہ نگار ہیں جو اپنے منفرد اسلوب کے لئے معاصر افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں ۔ میرے پہلے افسانہ مجموعہ ” برگد” پر ان کا تنقیدی مضمون کراچی سے شائع ہونے والے معروف روزنامہ ” جسارت” کے سنڈےمیگزین میں قسط وار شائع ہو رہا ہے ۔ پہلی قسط حاضر ہے جبکہ دوسری اور آخری قسط اگلے اتوار کے میگزین میں شائع ہوگی مُکمل مضمون حاصل کر کے نیچے اپ لوڈ کر دیا ہے۔شاہکار افسانوں کی خالق کے قلم سے اتنی خوب صورت نثر پڑھ کر بہت لطف آیا۔
” زمین زادہ ” جیسے شاہکار کی خالق افسانہ نگار کے وقت اور توجہ کے لئے دل سے شُکر گزار ۔
سلامت و شاد رہیں ۔
اللہ قلم کو اور جولانی بخشیں۔
بہت ممنون و سپاس گزار ۔
مکمل متن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…….
جاوید انور۔۔۔۔ دا بیوروکریٹ، دا رائٹر اینڈ دا مسنگ لنکس
تحریر: فارحہ ارشد
یونانی دیومالائی اساطیردیکھ لیں یا ویدک پران کتھا شاستر ، ابتدائےآفرینش سے طاقت کے دیوتاؤں کی ایک طویل فہرست یہ ثابت کرتی ہے کہ طاقت کا حصول انسان کی سرشت میں شدت سے موجود ہے۔اقتدار کے حصول،تحفظ اوراسےعمرخضر بخشنے کے لئے جدوجہد ،باہمی داروگیر اور کشاکس ایک فطری،ازلی اور مقناطیسی کشمکش ہے۔اس ضمن میں ابلیس کی بغاوت کو بھی شامل کرناچاہوں گی کہ اس کی بغاوت کہیں نہ کہیں اس طاقت کو برقراررکھنے کی کوشش تھی جو اسے اللہ کا سب سے زیادہ مقرب بندہ ہونے کی صورت میں حاصل تھی اور جس کے خمار نے اسے غرور میں مبتلا کردیا تھا ۔۔۔غرور کچھ اور نہیں سوائے اس کے کہ صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت سے آدمی محروم ہوجاتا ہے۔طاقت نے اسے غرور میں مبتلا کیا اور غرور نے اسے راندہ درگاہ کر کے نشان عبرت بنادیا۔یونانی دیومالائی اساطیر اور ابلیس کی مزاحمت سے قطع نظرنیچر(فطرت) عین فطرت میں خود بہت طاقتور ہے اورمنفی اور مثبت دونوں طرح کی طاقتوں کا منبع ومخرج ہے۔ زن ،زراور زمین کے علاوہ غیر مرئی ذرائع اس کی طاقت کا سرچشمہ بنتے رہے۔مراعات اور غیرمراعات یافتگان کی اس دنیا میں طاقتورکی طاقت ، کمزور کی کمزوری سے مشروط ہے۔عہدِ حاضرمیں بھی فرد سے معاشرے اور پھرریاستی حوالے سے اسی طاقت نے اپنے پنجے مضبوطی سے مجبور وکمزور کی پیٹھ میں گاڑ رکھے ہیں ۔ باطنی کینوس سے ذات و تشخص کے وہ رنگ جو انسانیت اور باہمی اقدارکی مثبت طاقت سے متصل تھے معدوم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ان حالات میں اگر کوئی صاحب حیثیت مذہبی ، معاشرتی اور سماجی نا انصافیوں پر انسانیت کے حوالے سے ہمارے ادراک و شعور کو جھنجھوڑتا ہے تویہ کچھ عجیب بھی نہیں کہ مثبت طاقت نے ہمیشہ کمزور کے لئےمنفی طاقت کے خلاف جنگ کی ہے ۔ خیر اور شرکی جنگ دنیا کے آخری دو انسانوں تک قائم رہے گی۔جاوید انورکے پاس بھی ایک طاقت ہے، موسسہ کا حصہ ہونے کی طاقت،قلم کی طاقت ، قوت فکر کی طاقت اور خواب کو حقیقت میں بدلنے کی طاقت لیکن اس طاقت نے انہیں گمراہ نہیں کیا بلکہ اُس کی حدت نے اس’ تثلیث ‘۔۔۔۔ جاوید انور ایک بشردوست،جاوید انور ایک فرض شناس بیوروکریٹ اور جاوید انور ایک حساس تخلیق کار ۔۔۔کوالفت ومواخاۃ کے تغارچے میں تحلیل کردیا کہ سارے جہاں کا درد جگر میں سیمٹنے والا یہ شخص غیرمتوازن،متکبر اورمتعصب کیسے ہوسکتا ہے۔میں واپس نفس مضمون کی طرف آتی ہوں ۔مجھے اس مضمون میں جاوید انورپربات کرنی ہے کہ ایک تخلیق کار کو اسکے پس منظر سے غائب کرکے کوئی حال پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی تخلیق کو اسکے تخلیق کار کے لوکیل سے الگ دیکھ کر اس کے ساتھ کما حقہ انصاف کرسکتے ہیں۔ لہٰذا شخصیت پر بات کرتے ہوئے میں انہیں خارجی صفات پر گفتگو مرکوز رکھوں گی جو میرے مشاہدات میں آئیں کہ باطن کا حال تو صرف اللہ واحد کو معلوم ہے۔ جاوید انور متوسط درجے کے زمینداروں کے درمیان آنکھ کھولتے ہیں۔۔خاندانی شرفا ء کی شرافت و نجابت اور رعب و دبدبے میں پرورش پاتے ہیں۔طبقاتی تفاؤت کو دیکھتے ہیں،کمیوں ، مصلیوں اور ذلتوں کے مارے ہوؤں کی محرومیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں، انگریزی ادب میں ایم اے کرتے ہیں اور محنت سے امتحان پاس کرکے اقتدار میں شریک ہوجاتے ہیں۔خاندانی مراعات،ادب کی جمالیات اور بیوروکریسی کی سوفسطائیت اگر اُنہیں ’ذلتوں کے مارے ہوؤں ‘ سے مزید دور کردیتی تو یہ کوئی حیرت و استعجاب کی بات نہیں تھی کہ عموما ً اس قسم کا پس منظر رکھنے والے یہی کرتے ہیں۔ پرانی دنیا کی راکھ جھاڑتے ہیں،ایک نئی دنیا آبادکرتے ہیں اورسارے پرانے کپڑے ، اس میں رچی بسی مٹی کی مہک، زمین سے جڑی قدروں کی شکن ، رشتے ناطے اور دوستیوں کی تھکن اتارکر نئےپیرہن میں ،نئے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ماضی ،گاؤں،چوپال،کھیت،کھلیان ، پگڈنڈیاں غرض یہ کہ رفتگاں کی ساری بستیاں پیچھے کہیں واپسی کی راہ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن جاوید انور ایسا نہیں کرتے ہیں وہ واپس آتے ہیں ، خزاں کے زرد پتوں کو چومتے ہیں،چوپال لگاتے ہیں ،گزشتگاں کے سارے کرداروں کوزندہ کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں ،بات کرواتے ہیں اور ان کا نام برگد رکھ دیتے ہیں۔
“مدتوں بعد گاؤں کی یاد ستائی تو واپس لوٹا۔ گاؤں سے کوس بھردور وہ بوڑھا برگدجہاں بھوتوں کے بچے مدرسہ لگاتے اور جنوں کے قافلے پڑاؤ کرتے تھے مجھے نچا کھسا ادھورا نظرآیا۔۔۔۔ برگد ص ۸۰‘‘
جاوید انورایک بیوروکریٹ ہیں۔ یہ ان کی پہلی شناخت ہے لیکن جب آپ ان کی تخلیقات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم پڑے گا کہ اصل زندگی کا بیوروکریٹ اپنے افسانے میں کہیں سانس لیتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ان کے افسانےبیوروکریسی کے شائبے سے عاری ہیں۔کوئی یوٹوپیا نہیں ہے۔ کوئی مثالی دنیا نہیں ہے اور نہ ہی اپنے قارئین کو اس قسم کے تخیل میں پناہ لینے دیتے ہیں۔عام زندگی کے عام کردار ہیں، ان کے حالات ہیں ، ان کی مشکلات ہیں اور ہم ہیں۔ تو میں بات کررہی تھی کہ جاوید انور کے افسانے سے بیوروکریٹ غائب کیوں ہے؟کیا اس لئے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے طبقے ،محکمے اور حکومت کے خلاف لب کشائی کی آزادی سے محروم ہیں یا اس لئے کہ ان کے پاس اظہار کی وہ جرات و ہمت ہی نہیں جو ایک غیرجانبدار تخلیق کار کی تخلیق میں وجدان و عرفان کے لئے لازمہ خیال کی جاتی ہے یعنی کہ اب میں ان کی تخلیقات پر بات کرنےجارہی ہوں ۔
جاوید انور کے افسانوں کی زمین چاندتارے،آسمان ،ستارے، کائنات اور وسعت افلاک نہیں ہیں بلکہ ان کےاندر زندہ اور پوشیدہ ایک چھوٹا سا معصوم دہقانی مزاج ہے جو
کبھی برگد ، نارسائی اور دشت وحشت کی شکل میں الگ الگ ڈالیوں اور ٹہنیوں سے لٹکتے، پھدکتے جھولتے ہوئے خوش خرام نیچے آتا ہے اوراپنی زمین کو بوسہ دے کر اپنی مٹی کی پہنائی میں گم ہوجاتا ہے توکبھی آخری گجرا،بھٹی اور شیرکی شکل میں سماجی تفاوت اور عدم مساوات کا جبر پیش کرتے ہوئےوہ بالکل نہیں ہچکچاتے کہ اقتدار میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔آپ ان کا احتساب کرسکتے ہیں کہ انہوں نے ان غیرمراعات یافتہ لوگوں کے لئے خود کیا کیا اورمجھے یقین ہے کہ وہ مایوس نہیں کریںگے کیوں کہ ان افسانوں کو میں ان کے مشاہدات سے جوڑتے ہوئے ان کی زندگی کا احتساب سمجھتی ہوں۔یہ افسانے اسٹیٹمنٹ ہیں اس بات کا۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار۔۔۔۔لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا(غالبؔ)
یہ بیوروکریٹ اپنے اوریجن سے کبھی اپ روٹ نہیں ہوسکا اور برگد اسی کا ماحصل ہے۔بہت ممکن ہے کہ جاوید انور کے اندر اور بھی دنیائیں ہوں، مکروہ دنیا، کینہ کپٹ،بغض و حسد اورکبرو نخوت کی دنیا، محرومیوں سے گرست ایک عام آدمی کی دنیالیکن ہم تک اس کی ترسیل نہیں ہوپائی ہے۔سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کی وجہ سے مجھ تک جو چیزیں پہنچی ہیں ان میں کوئی ایسی خاص کجی نظرنہیں جو ہدف تنقید ہو سوائے اس کے کہ وہ بہت جلد چیزوں کو درگذر یا معاف کردیتے ہیں۔ اب یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے یا تعریف پسندی یہ وہی بہترجان سکتے ہیں۔ سو ظاہرمیں جو نظرآیا ہے اسی ظاہر کے حوالے سے ان کے افسانوں کاتدارک کیا ہے۔
جاوید انور مادی ترقی کے زینے طے کرتے ہوئےآخری سیڑھی پرپہنچتے ہیں جسے ہم نے طاقت سے منسوب کیا ہےتو ان کا شعور و لاشعور ان کچی سڑکوں پہ ایک گھنے ، گھنیرے چھتنار برگد کے سائبان میں لاکھڑاکردیتا ہے جس کے اردگرد دور تک فسوں خیزاور وحشت انگیز تنہائی ہے اور جس کے راستے اس طرف جاتے ہیں جہاں وہ اپنا بچپن چھوڑ گئے ہیں۔ وہ ’بیوروکریٹ‘ ان رستوں کی جانب گامزن ہوتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ وہ حکومتی منصب کے ایسے تخت پہ براجمان ہے جہاں سے واپس پلٹ کے دیکھنا محال ہے مگر اس کا تحت الشعور اور لاشعور اس کو ان دیہاتوں کے مناظر میں جا پھینکتے ہیں جہاں سونے جیسی لہلہاتی فصلوں کے درمیان سے راستہ نکلتا ہے اور چھیداں کی بھٹی تک لے جاتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے جا ملتا ہے جن کے ہاتھوں پہ محنت کی لکیریں تو ہیں مگر حشمت و طاقت کی نہیں۔وہ ان میں سے نہیں کیونکہ وہ کمزور ہیں ۔۔۔۔۔ مگر وہ کسی مثبت طاقت کی طرح انہی کے اردگرد موجود رہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مادی وسائل سے مطمئن شخص خود کو ان جھونپڑیوں میں کیوں لےجاتاہے جہاں حسو کی ماں رابو اس مرد کی بیوی بن کے رہتی ہے جو سارا دن ریڈیو پہ گانے سنتا ہے، مرغ لڑاتا ہے، جوا کھیلتا ہے، دوسرے مردوں کی طرح ہنکارے بھرتا ہے اور رابو دوسری بیویوں کی طرح کمائی کرنے نکلتی ہے۔۔۔۔ وہاں سے نکل کرمحمد علی ماشکی سے جا ملتا ہے اور اس کے بیٹے کی سائیکل کے تڑے مڑے حصے ہی ٹرالی سے اترتے نہیں دیکھتا بلکہ سانولا بازو بھی چارپائی سے لٹکتا دیکھتا ہے جس میں گھڑی ہوتی ہےلیکن وقت بتانے والی سوئیاں نہیں اور پھر وہ کونسا جذبہ ہے جوآخری گجرےکی خوشبو کو صرف ابدیت ہی عطا نہیں کرتا ہے بلکہ باپ کی میٹھی گنڈیڑی کی روایت سے بھی جوڑدیتا ہے ۔ یہ سوالات ہمیں سوچنے پہ مجبورکرتے ہیں کہ جاوید انور جیسے مراعات یافتہ شخص کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ برگد کے نیچے کھڑا اپنی طاقت کی کہانی نہیںبلکہ ان کمزور لوگوں کی کہانیاں بیان کررہا ہے۔
ان کے افسانے پڑھنے اور سوشل میڈیا پران کی شائستگی اور بردباری کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچی ہوں کہ وہ بنیادی طور پر بہت ہی حساس اور انسان دوست ہیں۔ ان کی مقصدیت کسی ازم سے نہیں جڑی ہےبلکہ یہ ان کی اپنی طبیعت کی گداختگی ہے۔ وہ مثبت طاقت انہیں بار بار کرسی سے اٹھا کر ان اذیت گزیدوں میں لے جاتی ہے جو محنت تو بہت زیادہ کرتے ہیں مگران کے حصے میں تنگی ، بھوک ، مفلسی اور سماجی ناانصافی سے زیادہ کچھ نہیں آتا۔ وہ ان کی آواز بن جاتے ہیں جن کی آوازمنفی طاقتورکے قدموں کے شور میں کمزور ہوگئی ہے۔ان کے اندر کا تخلیقی انسان اور حکومتی منصب پہ بیٹھا شخص ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہیں ہوتے ۔وہ اپنے اپنے حصے کا کام بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں ، بیچ میں ایک محبت ہے جو ہر دو فریق کے مساموں سے پھوٹتی ہے اور ان کے افسانوں اور شعروں میں جذبات واحساسات کی مختلف سطحوں میں کار فرما نظر آنے لگتی ہے کہیں بھی کوئی ایک دوسرے کے لیے رکاوٹ نہیں بنتاکیونکہ دونوں مثبت طاقت کی مثال ہیں۔
گو کہ جاوید انور کا فنی سفر دیر سے شروع ہوا مگر انکے افسانوں میں مشاہدہ کی گہرائی ،موضوعات کا تنوع اور زبان و بیان کا سلیقہ یہ بتاتا ہے کہ وہ کئی سال سے یہ ساری کہانیاں اپنے اندر بُن رہے تھے ۔ صفحہ قرطاس تک پہنچتے پہنچتے ان کہانیوں نے اپنی عمر کے کئی سال اس برگد کے چہار جانب سے نکلنے والے رستوں میں گذار دئیے ۔ گویا ان سنجیدہ اور ذہین کہانیوں کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے تجربات کی بھٹی نے انہیں خوب کندن بنایا ہے۔ ایک خیال وہ اپنے مشاہدے کی بھٹی سے اٹھاتے ہیں اور اسے اپنی زنبیل میں ڈال کر فائلوں میں سر دے لیتے ہیں اور اپنے منصبی فرائض سے فارغ ہونے کے بعداس زنبیل سے ایک خیال نکالتے ہیں اور تخلیق کے ایک اور جہاں میں جا پہنچتے ہیں ۔ زندگی کہیں نہیں رکتی اوران کے فن کی اُپچ تو سانس بھی نہیں لیتی ۔کہانیاں ان کے اندر ایک جہان بسائے رکھتی ہیں کبھی کسی قبر کے اندر سانس لیتی ہوئی اور کبھی کسی ماشکی کے زندگی سے بھرپور بیٹے سے سانس چھینتی ہوئی۔کبھی کبھی لگتا ہے وہ پرانے زمانوں کا داستان گو ہیں جو برگد کے نیچے ہر شام محفل سجاتے ہیں اور اس کی افسانہ طرازی ،داستانوی ماحول اور منظر کشی کے
بیان کو ظاہری مفاہیم کے ساتھ عصری رویوں میں مضمر جہات کی عقدہ کشائی کرتی چلی جاتی ہے۔بے شمار تراکیب، علامات اور ان سے منسلک استعارات و تلازمات ان کے بیانیہ میں جامد نہیں متحرک محسوس ہوتے ہیں۔’دشت وحشت‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’گاڑی جب اسٹیشن چھوڑتی ہے تو ایک اداسی پیچھے پلیٹ فارم پر رینگتی اور خالی پٹری سے چمٹی رہ جاتی ہے۔ گاڑی خود بھی بہت اداس ہوتی ہے لیکن بہت سی رونق اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ص ۸۳‘‘۔ یوں تو یہ سرحد پرجانے والی ایک عام گاڑی کے بارے میں ہے لیکن متن کو جیسے ہے اس کے سیاق و سباق سے ماورا دیکھنے کی کوشش کریں گے آپ کو لگے گا کہ یہ کوئی اورنہیں بلکہ جاوید انور اپنی زندگی کے سفر کی گاڑی کا ذکر کررہے ہیں۔ ایک اور پیراگراف ملاحظہ کریں’’ سورج دن بھر گاڑی کے آگے پیچھے پھرتا بالآخر ایک سمت ہوکر بیٹھ گیا اور صحرا بتدریج تاریکی میں ڈوب گیا، ایک پر اسرار خاموش اندھیرا چاروں طرف محو خواب تھا اور تاروں بھرا آسمان گاڑی پر تنا ساتھ ساتھ بھاگاجاتا تھا۔ دشت وحشت ص ۹۱‘‘
ان کا موضوعاتی وجود رواں صدی کے سماجی رویوں ،نفسیاتی عوامل،وجودی محرکات کومقامیت میں گوندھ کراٹھایا گیا ہے ۔ وہ اِنسانی روابط کو مضبوط بناتے ہوئے داخلی منظر نامے سے مربوط کردیتے ہیں گویا خارجیت سے داخلیت یا احتساب و مشاہدۂ ذات کا سفر۔ افسانہ بھٹی کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں’’اس سے پہلے کہ چھیداں یا کوئی بھی موجود فرد اس کی کیفیت بھانپ سکتا اس نے طوفان کی طرح لپک کربھٹی کے ایندھن والی سمت دھانے پراپنی مشک پہنچائی اور ڈھیروں پانی بھٹی میں انڈیل دیا۔بھٹی سے گھٹی گھٹی چیخیں اور دل دوز آہیں نکلیں۔ دھواں اورآگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہرخوشبو پر غالب آگئی اور پورے گاؤں پرسوگ پھیل گیا۔ ص ۵۱۔۵۲‘‘
ان کی کہانیوں کی ایک خاص بات ہے کہ وہ کہیں پند و نصائح یا وعظ سے کام نہیں لیتے،اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے ہیں بلکہ جو کچھ ہے اور جیسا ہے قاری کے حوالے کردیتے ہیں۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک منظر کھینچتے ہیں،ان میں کرداروں کو ان کی پوزیشنوں پر کھڑا کرتے ہیں اور ہرکردار ہاتھ باندھے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ہر کردار اپنے وقت پہ اپنا مکالمہ ادا کرتاہے۔ یوں نہ کم نہ زیادہ والا معاملہ گتھی سلجھاتا یا الجھاتا آپ کے سامنے ہوتا ہے اور داستان گو آپ کے اندرشعور و لاشعور کی کئی نئی جہتیں کھولتا، نئے روزن وا کرتا،فکر کی ایک نئی چنگاری روشن کرکے خاموش ہوجاتا ہے۔ دیہی کرداروں کی تحلیل نفسی اور جزئیات نگاری میں ان کا قلم فلم کی طرح چلتا ہوا نظرآتا ہے ۔
نفسیاتی حوالے سے اگر ان کے کچھ افسانے دیکھے جائیں تو بھڑ ، غرض اور دلہن میں مرکزی کرداروں کی نفسیات کو اس انداز میں کھول کے رکھ دیا ہے کہ قاری اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایگو ۔ڈیفنس میکانزم کو جس طرح راجہ میں بیان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک کمال ہے۔چونکا دینے والی صاف گوئی ان کی تحریر میں جا بجا ملتی ہے اور آپ حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب وہ اپنے ہی طبقہ کے خلاف سماجی ناانصافیوں کی بات کرتے ہیں۔ چودہ افسانوں اور تیرہ افسانچوں میں زندگی کے وہ تمام اہم رنگ موجود ہیںجنہیں کائنات کو پینٹ کرنےکےلئے ایک مصور کو ضرورت پڑتی ہے۔سائنس فکشن پہ مبنی افسانچےرا طوطا صاحب اور جشن گو کہ علامتی تحریریں ہیں مگر ان میں جس طرح سے معاشرے کے طاقتور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ خاص طور پہ را طوطا صاحب تو مکمل طور پہ سیاسی استحصال کے اردگرد گھومتی ہے۔جاوید انور نے صرف خارجی طاقتوں کو ہی موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ ان داخلی طاقتوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے جو ایک خوف کی صورت میں ہماری نفسیات و حسیات میں پیوست ہیں اور ہماری جرات و استقلال کو دیمک کی طرح چاٹ ڈالتی ہیں’آخری بات‘،’ آخری رات‘ اور’گھر‘ اس کی شاندارمثالیں ہیں ۔
جاوید انور بلاشبہ ایک خاص آدمی ہیں۔خاص آدمی اس معنیٰ میں کہ وہ بیوروکریسی کی آخری سیڑھی پر ہیں مگر عام آدمی کو اپنے اندر سے مرنے نہیں دیتے۔ اسے زندہ رکھتے ہیں کہ یہی عام آدمی ان کی کہانی ہےاورکہانی زندہ رہے گی کہ یہی زندہ رہنا ہی دراصل اس کی موت ہے۔
ملان کندرا ایک جگہ لکھتاہے کہ کئی برسوں بعد جب میں اپنے ملک چیک جمہوریہ واپس گیا تو میرے دوست مجھے اپنی اپنی کہانیاں سنانے میں مگن ہوگئے۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ ان برسوں میں میں کیا کررہا تھا۔ ایک کہاوت ہے “Every body loves good audience” ہر ایک اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے ، ہر ایک کو اچھا سامع پسند ہے۔ کندرابھی سنانا چاہتا تھا۔ لیکن جاوید انور اپنی کہانی نہیں سنا رہے ہیں(کیا ان کے پاس کہانیاں نہیں ہوں گی؟) وہ عام لوگوں کی کہانی بیان کررہے ہیں’کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے‘ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بیوروکریٹ اور رائٹر کی کہانی میں کچھ زیادہ دوری نہیں پائی۔ بیوروکریٹ اور رائٹر کے درمیان کچھ خاص گیپ نہیں ہے۔کچھ زیادہ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جو اِن دو کے درمیان مسنگ ہے ۔۔۔۔ بیچ میں کوئی ایک کڑی کمزور ہے
اب وہ مسنگ لنکس یا کمزور کڑیاں کیا ہیں آئیے ان پر بات کرتے ہیں۔ جاوید انورکے افسانوں میں افسانے کے تمام فنی لوازمات موجود ہیں، سارے افسانے اپنی بنت میں میچور ہیں لیکن کہیں کہیں حال کیفیت میں تبدیل نہیں ہوپایا ہے اور مجھے اس کی جو وجہ سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ کہ جاویدانور قومی مقتدرہ کا حصہ ہیں۔ اس لئے بہ حیثیت ایک تخلیق کار کے جب وہ غربتوں کے مارے ہوؤں پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس تخلیقی عمل میں دیر تک قیام نہیں کرپاتے جو کیفیت کے لئے لازمی ہے۔اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اب وہ عمر کے ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں کیفیت اپنے مدار کو پار کرکے میچور ہوگئی ہے۔بہرحال جو بھی وجہ ہےلیکن ایک آنچ کی کمی ضرور نظرآتی ہے۔ کتاب ختم کرنے کے بعد اطمینان تو محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک خلش بھی ٹیسیں مارنے لگتی ہے ۔ تعین قدر کی خلش ۔ کوئی ایک ایسی چیز درمیان میں موجود ہے جو تعین قدر کی راہ میں حائل ہے اور اسے میں
’مسنگ لنکس‘ (گمش شدہ کڑیوں) سے تعبیر کروں گی جو تخلیقی عمل میں کیفیات کے انجذاب و تحلیل کے فقدان کی صورت میں کہیں کہیں نظرآئی ہیں۔بہ الفاظ دیگر اس کینوس کا فقدان ہے جو افسانوں کو ایک بڑا افسانہ بناتا ہے۔ برگد ، آخری گجرا اور دشت وحشت میں ایک بڑے افسانے کی ساری خوبیاں موجود ہیں لیکن یہی بات تمام افسانوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتی ہوں ہر چندکہ موضوعاتی تنوع ہے لیکن اس’ فلسفیانہ‘ اساس و تفکر کی کمی محسوس ہوئی ہے جوافسانے کی تہہ داریوں میں معنوی امکانات کا جہان تلاش کرنے کے لئے رکنے پرمجبورکرتی ہے۔ان اعتراضات کےباوجود جاوید انور کومیں یہ اسپیس دوں گی کہ انہوں نے صرف اور صرف اپنی تخلیقی صلاحیت کی بنیاد پربہت کم عرصے میں اور بہت آسانی سے خود کو معاصرین کے درمیان منوایا ہےاور یہ میں کوئی احسان نہیں کررہی ہوں بلکہ یہ ان کا حق ہے۔ایک سال کے اندرشاعری اور افسانے کی دو کتابیں منظر عام پر لانا ایک عام ذہن کے بس کی بات نہیں۔یہاں لوگ دس دس سال سے قلم گھسیٹ رہے ہیںاور نہیں لکھ پارہے ہیں۔ یہ قلم معجزہ ہے ہر ایک کو نہیں دیا جاتا۔امیدہےجلد ہی اور خوبصورت کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔ اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے۔
1,264