1,115

جاوید انور ایک روایت شکن افسانہ نگار! …از حمید قیصر

جاوید انور ایک روایت شکن افسانہ نگار!

ممتاز افسانہ نگار اسد محمد خان نے جاوید انور کے افسانوی مجموعہ ” برگد” پر یوں رائے دی تھی؛
” صاحب! مصنف نے تو کمال کر دیا؛ صرف سوچا نہیں، انہوں نے اس کچرے کوڑے طبقے سے ایک ”اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی، آدھی اڑتی” ڈومنی غلام بی بی، گاماں میراثن تخلیق کی، جو ایک ”نجیب الطرفین ، سونا اگلتے مربعوں کے اکلواتے وارث بانکے سجیلے اچھوکو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے؛ اچھو بھی ایسا ہی کرتا ہے۔
پھر تو وہی سب ہونا تھا جو ہوا۔۔۔جو مصنف نے بیان کیا: کہ ” مٹی اڑاتی لال آندھی کی طرح” اچے شملے والی’ بااختیاری’ چاروں طرف سے چڑھ دوڑی، غلام بی بی کی بے راہ روی کا انجام یہی ہونا تھا۔ گاماں بدخبری کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ پھر خاص الخاص پشتینی میراثی، بگے کو پکے برگد کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ یعنی نمبردار اور پولیس والا بھی مصروف اور مولوی بھی مصروف۔۔”
جاوید انور کی تمام کتابوں کے مطالعہ اور انکے فن پر صاحبان علم و دانش کی قائم کردہ آراء پڑھنے کے بعدمیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فطرت جاوید انور جیسے لکھنے والوں کو بے سمت معاشروں میں مساوات ، عدل و انصاف اور باہمی رواداری کے فروغ کیلئے جنم دیتی ہے۔جو انتہائی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ذہن و قلم کی جولانیوںسے اپنا تخلیقی کردار خونصورتی سے نبھاتے ہیں۔ صاحب الرائے اہل قلم نے بجا طور پر جاوید انور کو ایک درویش صفت لکھاری قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنے تبحر علمی اور زندگی کی گہری ریاضتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعری میں اپنے دل کی باتیں کی ہیں اور احساسات و محسوسات کے ہمیں وہ جہان دکھلائے ہیں جو عام آدمی کی دسترس سے دور رہتے ہیں۔کتاب ” کئی منظر ادھورے ہیں” کی نظمیں ،غزلیں اس بات کی گواہی دیتی محسوس ہوتی ہیں۔ جاوید انور لگے بندھے اصولوں کو خاطر میں لائے بغیر حاشیوں سے باہر نکل کر اپنے خیال و احساس کو گرفت میں لاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سکہ بند شاعروں سے یکسر مختلف محسوس ہوتے ہیں۔
افسانے میں بھی انکا یہی چلن محسوس کیا جاسکتا ہے۔دل کی دستک پر بیدار ہوکر افسانہ اور کہانی کا ح بھرپورحق ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہاجاوید انور تخلیق ادب میں اصول و قیود کے زیادہ قائل نظر نہیں آتے۔ وہ کچھ ایسا لکھنا چاہتے ہیںجو عام طور پر انکے اپنے مطالعہ میں نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فطرت انکے دل و دماغ میں قدرتی طور پر بسرام کر چکی ہے اور وہ اپنے خیال و احساس کی ہر دستک پر رواں ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکے بیشترافسانے ذرا ہٹ کے ہیں۔یہی متنوع افسانے اب انکی پہچان بن چکے ہیں۔ انکی تازہ کتاب ” سرکتے راستے” ایسے ہی سحر انگیز اور مختلف افسانوں کا مجموعہ ہے۔جس نے نہ صرف اردو ادب میں انکا پھرپور تعارف کرایا ہے۔ بلکہ فیس بک کے ادبی فورمز پر بھی انکے افسانوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔
لکھنے والا فطری طور پرتبدیلی کا خواہاں اور انقلابی ہوتا ہے۔ اسکا ہر ہر لفظ تغیر و تبدل کا نقیب ہوتا ہے۔ جاوید انور کا تعلق بھی لکھنے والوں کے اسی قبیلے سے ہے جو کسی سماجی و معاشرتی جبر کو خاطر میں لائے بغیر قلب و روح کی گواہی میںحق کااعلان کرتے چلے جاتے ہیں۔جاوید انور عصر حاضر میں سانس لیتے ہوئے اپنے عہدکا سچ لکھنے پر مامورہیں۔عام آدمی کی بات کرتے ہوئے سماجی جبر کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ روایت شکنی بھی کرتے نظر آتے ہیںجو اتنا آسان نہیں ہے۔تاہم ادیب کا اپنا ایک مقام ہے اور وہ اپنی تخلیقی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے ہر وقت تیار رہتاہے۔ جینوئن ادیب کو اپنے عہد کا سچ لکھتے ہوئے کئی طرح کے سماجی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاص طور پر اس وقت جب جاوید انور کی طرح انہیں ایک طرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہوں اور دوسری جانب وہ عام آدمی کے ساتھ بھی کھڑا ہو۔ ادب میں یہی مثبت طرز احساس جاوید انور کو اپنے عہد کے افسانہ نگاروں میں ممتاز کرتا ہے۔انکی شخصیت میں تصنع اور بناوٹ نہ ہونے کے باوصف وہ مجھے ہر دو طرح کے کردار کامیابی سے نبھاتے ہوئے پرسکون نظر آتے ہیں ۔ انہیں ایسا کرتے ہوئے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔
جاوید انور کی زبان و بیان کی بڑی خوبی انکی سلاست و روانی ہے۔ مزاجا وہ ایک حد درجہ حساس شاعر ہیں اور شاعر ہر ایک لفظ سہج سہج کر لکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انکے افسانوں میں بھی شعری کفایت لفظی کے مظاہرے جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انکے افسانوں اور کہانیوں کے نام بھی نظموں سے مماثل ہیں۔ چنانچہ انکے بارے میں یوں کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ وہ افسانہ لکھتے ہوئے شاعر کو اپنے قلب و روح سے جدا نہیں کرپاتے۔اس صورتحال نے جاوید انور کے افسانوں کو شاعرانہ لحن عطا کردیا ہے۔میں انہیں تازہ کتاب ”سرکتے راستے” کی آمد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انکی مزید کامیابیوں و کامرانیوں کیلئے دعاگو ہوں!

( حمید قیصر )

https://web.facebook.com/hameed.qaiser2/posts/2407911392559642

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں