جاوید انور کی افسانوی دنیا. از نعیم بیگ
حیرت ہوتی ہے جب یار لوگ بات کرتے ہیں اور آج بھی اِس سوال کے جواب کی تلاش میں سر گرداں ہیں کہ کہ ادب ہے کیا؟ اچھا! صرف یہی نہیں کہ ادب اور غیر ادب میں کیا فرق ہے؟ ہمارے ہاں یہ سوال اردو ادب کی اصناف کے حوالوں سے بھی زیر بحث رہا ہے، کیوں کہ ہر عہد میں فن اور ادب کی تعریف کو الگ معنی دیے گئے۔ تاہم مجموعی طور پر اسے صرف زندگی کا جوہرِ عکس ہی نہیں سمجھا گیا، بَل کہ فن کار کے گنجلک مزاج کے آئینے میں اس کے اظہار کو ایک مخصوص معنویت بھی دی گئی۔
غلام حسین ساجد ’’سرکتے راستے‘‘ کے فلیپ پر کیا خوب کہتے ہیں:
“موزوں اور مناسب الفاظ کا ایسا چناؤ کہ معنویت کی تہہ داری پر ٹھہر کر غور کرتے بِنا بات نہ بنے اور اختصار ایسا، کہ تشریح کا پھول وجدان کے ساتھ ساتھ احساس میں بھی کھِلے اور کھُل کر اس طرح مہکے کہ معانی اور امکاناتِ معانی کی روشیں سجتی چلی جائیں۔‘‘
آب آپ غور کیجیے، اگر ہم ادب کو زندگی کے معانی اور امکاناتِ معانی کا مترادف سمجھ کر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسباب و مواقع مہیا نہ کریں، تو ادب کی تشریحات اور اس کی معنویت کہیں پیچھے رہ جائے گی اور زندگی ایک دریا کے مانند آگے کی طرف بڑھ جائے گی۔ انسان کی زندگی میں ارتقاء ایک لا محدود تصور ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی طرح اس کی تمثیل اور تمجید، انگریزی میں اسے سبلیمیشن کہہ لیجیے اگر ہے؟ کو کبھی فکریاتی تنوع میں یا کہیں میلانات و نظریات کے تحت امکاناتِ معانی کو کھول کر رکھ دے تو کیا برائی ہے۔ یہی تو وہ ادب کی روشیں ہیں جن کا ذکر غلام حسین ساجد کرتے ہیں۔
مجنوں گورکھپوری کہتے ہیں:
’’ادب انسان کے جملہ مادی اور غیر مادی مؤثرات کا نتیجہ ہے، اور اس کی تمام عملی و فکری حرکات و سکنات کا ماحصل۔‘‘
دوسرے لفظوں میں جب تک موجود میں ممکن، واقعے میں تخیل، حال میں مستقبل کا عُنصر داخل نہ ہو، تو ادب وجود میں نہیں آتا۔ یوں بہ ظاہر ادب مقصد و غایت سے بے نیاز نظر آتا ہے، لیکن خارجی اسباب اور حالات سے ما ورا نہیں رہتا۔ با لکل ایسے ہی جیسے سورج کے وجود کا مقصد بہ ظاہر روشنی دینا ہے ‘لیکن گرمی پہنچانے کا فریضہ غیر شعوری طور پرہے، تاہم یہی سورج اگر شعوری طور پر غلو یا مبالغے کے ساتھ اپنا مقصد پورا کرنے پر آمادہ ہو جائے تو تصور کیجیے، کیاقیامت برپا ہو۔
اینگلز صاف صاف کہتے ہیں، ’’جتنا زیادہ مصنف کا مقصد مخفی ہو گا، اتنا ہی تخلیق کے حق میں بہتر ہو گا۔‘‘ دوسری عرض یہ کہ فن مطلق ہے نہ تجریدی، یہ قابلِ ادراک ہے اور متحرک، یعنی کائنات کے دیگر مظاہر و اجزاء کی طرح رُو بہ تغیر ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اپنی ارتقاء پذیری کی وجہ سے ابدی طور پر تازہ رہتا ہے۔
میری پہلی ملاقات جاوید انور سے تب ہوئی جب چند برس پہلے ان کا ایک افسانہ ’’بِھڑ‘‘ فیس بک پر منعقد کسی افسانوی میلہ میں شایع ہوا تھا۔ بعد میں یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعے ’’برگد‘‘ میں شامل ہوا۔ افسانہ نَپا تُلا تھا، مناسب الفاظ کے چناؤ سے موزوں ہوتا ہوا معنویت کی کئی ایک تہہ داریوں میں ملفوف، جہاں ایک طرف قاری کو سادہ سا بیانیہ مہیا کرتا، وہیں معروضیت کے ایک عہد کو کھول کر سامنے لے آتا ہے۔ اگر آپ ایک سطر میں مجھ سے پوچھیں کہ یہ افسانہ کیا تھا؟ تو میں بلا جھجک یہ عرض کروں گا کہ ’یہ افسانہ فن کے ان تینوں اصولوں پر پورا اترتا ہے جس میں سچ، خیر اور حسن کا جمالیاتی توازن موجود ہو ۔‘ اور فکشن کی یہ تعریف یونانی فلاسفر افلاطون کی ہے۔
کسی بھی فن میں اگر یہ تینوں اصول ایک ساتھ کارِ فرما ہوں تو سمجھ جائیے کہ فن اپنے عروج پر ہے۔ گو ان اصولوں میں تناسب کی مقدار کو اکثر فن کار اپنے جوہری و فکری نظریات کے تحت رد و بدل کرتے رہتے ہیں۔ تاہم فن انہی سہ جہتی فعالی اصولوں پر ایستادہ ہے۔ جاوید انور کے فن کو میں نے انہی اصولوں کی پاس داری کرتے دیکھا ہے۔
اکیسویں صدی کی پہلی دھائی سے دنیا کے منظر نامے تبدیل ہونے لگے۔ ہمیں ملکی سیاست کی عطا کردہ محرومیوں اور کثافتوں نے خوابوں اور نعروں کی دنیا سے نکال کر ایس سنگین دنیا میں لا کھڑا کر دیا، جس میں ماضی کا متحیر کر دینے والا کوئی خواب کوئی نظریہ سکون کا باعث نہ بن سکا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بھی عملی طور پر اِس نسل کو جو اپنے شعور کی ابتدائی منزل سے گذر رہی تھی، ویرانی، پشیمانی اور ان دیکھے خوابوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ ایک طرف ریاست کا خواب بوٹوں کی ٹھوکروں سے دو لخت ہوا، دوسری طرف در ماندہ مزدور اور پریشان حال کسان کی محنت مکروہ اجارہ داروں کی بھینٹ چڑھ گئی، جنہوں نے موجِ کوثر کو بھی زہراب بنا دیا۔
پھر نتیجہ سامنے ہے۔ تاریکی کا ایک اور سفر شروع ہو گیا۔ آزادئِ فکر و خیال صرف ذہنوں میں گونجتی رہی، اور لبوں پر آئی تو ہونٹ کاٹ دیے گئے۔ الہامی کتابوں سے مرتّب کردہ نظامِ حکومت کے چولے میں آمریت نے سڑکوں پر لہو کی آب یاری کی، تو پھر وہی ہونا تھا، جو ہوا۔
تنہا، پسِ زنداں، کبھی رسوا، سرِ بازار
جاوید انور کو بھی ایک ایسا ہی اجالا ملا، جو تاریکی میں الجھا ہوا تھا۔ اس طرح معاشرے کی نوزائدہ تہذیب پر اگر ادب و فن کی بجائے آہنی ٹینکوں کی گھن گرج، جہازوں کی گونج اور توپوں کا دھواں پھیل جائے، تو وہ تہذیب اگر مرتی نہی تو مرجھا ضرور جاتی ہے۔ اسی مرجھائی ہوئی تہذیب میں ادیب و شاعر اپنے فکر و خیال سے چمنستان وطن میں ایک ایسی خوش بُو پھیلاتا ہے جس کی مہک دور دور تک پھیل جاتی ہے۔
اور یہی کام جاوید انور نے کیا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’برگد‘کے افسانے ’آخری گجرا‘ اور ’بھٹی،‘ افسانچوں میں، ’راجہ‘،’جشن‘، اور ’گھر‘ جیسے افسانچے اس مہک کو ہر سُو پھیلا دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے مجموعے ’سرکتے راستے‘ سے پہلا افسانہ ’دروازہ‘، ’معمولی‘ اور افسانچوں میں ’یکم مئی‘ اور ’دوسرا کتا‘ شامل ہے۔ جاوید انور نے ان فن پاروں سے دلوں میں مچلتی زندگی اور فکر کی جولانی کو اسیرِ خیال و لفظ کیا اور اپنا دل چیر کے قاری کے سامنے رکھ دیا۔
جاوید انور کے افسانوں کی نِیو میں ٹھوس اور زندہ حقیقتوں کی عکاسی مدفون ہے۔ ان کا فن کارانہ شعور اتنا گہرا اور مشاہدے کی قوت اس قدر سیماب صفت ہے، کہ ان کا فکری وجدان ہر دو طرف بہہ نکلتا ہے، اور وہ انہی کی خاصیت ہے کہ اس وفورِ تخلیق کو کس صنف میں ڈھالنا پسند کرتے ہیں۔
میں نے ان کے منظوم کلام کو بھی پڑھا ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ان کے ہاں تنوع بدرجہ اتم موجود ہے۔ زندگی کا کون سا ایسا رخ ہے، جس طرف جاوید کی مشاہدے کی نظر نہ مڑی ہو۔ یوں اردو ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے مجھے یقین ہے کہ محمد جاوید انور اپنے فکری سفر کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے، اور ہمیں اپنے فن سے اسی طرح نوازتے رہیں گے۔
یہ مختصر اظہاریہ مورخہ ۱۴ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں محمد جاوید انور کے افسانوی فن پاروں کے اعزاز میں پڑھا گیا۔