’’زندگی کی لہر میں‘‘
از:غلام حسین ساجد
بتاریخ: 13اکتوبر2018ء
’’سرکتے راستے “ محمد جاوید انور کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ اطلاع اس لیے اہم ہے کہ وہ شاعر بھی ہیں اور ایک بہت متحرک اور فعال افسر بھی اور تین ہی برس میں شاعری اور فکشن کے چار مجموعے شائع کر کے خیال اور عمل کی رفتار کو یک جان کر چکے ہیں۔
اُن کے افسانوں کے مجموعے ’’برگد‘‘ پر ایک مُختصر شذرے میں مَیں نے عرض کیا تھا کہ اُن کے یہاں اچھا فکشن نگار ہونے کی سَبھی خوبیاں موجود ہیں۔ کہانی بُننے اور کہنے کی فطری صلاحیت اور اس پر مُستزاد نہایت گُتھی اور نپی تُلی نثر لکھنے کی مہارت۔ وہ وضاحتی اور بے قابو پھیلاؤ سے مملو تحریر پر بھروسہ نہیں کرتے اور زندگی کی بڑی حقیقتوں کو ’’بونسائی‘‘ کر کے اپنی زنبیل میں ڈالتے اور ایک پر معنی کُشادہ منظر کی طرح قاری کے ادراک میں پھیلا دیتے ہیں کہ موضوع کا ظاہر و باطن لَو دینے اور اُس کی حقیقی تفہیم کا پھول بے ساختہ مہک کر خوشبو بانٹنے لگتا ہے۔
ایسی برمحل اور بامعنی نثر لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص طور پر جب لکھنے والے کے پیش نظر بات کو کم سے کم لفظوں میں کہنے کا ہدف ہے۔ اِس کے لیے لفظ کے ہمہ جہت مفاہیم ، درست لفظ کا انتخاب، موضوع ، ماحول اور منظرنامے سے اُس کی مطابقت تو لازم ہے ہی قاری کی بصیرت اور فکری اُپج کا اِدراک ہونا بھی ضروری ہے اور اِس کے باوصف فکشن کی روایت اور ہم عصر بیانیے سے انسلاک کی صفت بھی۔ محمد جاوید انور نے ’’برگد‘‘ میں اور اب “سرکتے راستے “ میں ثابت کیا ہے کہ اُنہیں اِن تمام منازل کو سَر کرنے میں قطعی کوئی دِقّت نہیں ہوتی اور اُن کے یہاں لفظ ، علامتوں اور استعاروں میں ڈھل کر بھی بے چہرہ اور مبہم نہیں ہوتے اور ایک مانوس شباہت اور تفہیم کا دَر ہمیشہ کھُلا رہتا ہے۔
’’سرکتے راستے‘‘ اُسلوب اور موضوعات کے حوالے سے ’’برگد‘‘ کا تسلسل ہے گرچہ تجربے کی ندرت کے حوالے سے اسے اگلا قدم کہنا مناسب ہوگا۔ ہمارے لکھنے والے کہانی اور افسانے کے بیچ تفاوت کے حوالے سے اُلجھتے رہتے ہیں مگر محمد جاوید انور کے اسلوب نے ان تمام مباحث کو بودا بنا دیا ہے کہ وہ کہانی اور افسانے کی تقلیبِ نو کے پیش رَو ہیں۔ اُن کے یہاں کچھ بھی نامانوس نہیں۔ تاہم وہ اسے نامانوس بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اُن کے کمالِ فن سے کُچھ ایسا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس بھی نہیں اور ایک ماہرانہ سٹروک لگتے ہی حقیقت تجرید اور تجرید حقیقت میں ڈھل سکتی ہے۔
اِس کی مثال اُن کے افسانے ’’دروازہ ‘‘ ، ’’سرکتے راستے “،’’ زندگی اے زندگی‘‘ ، ’’فیک‘‘، ’’مہربانی‘‘، ’’مہابندر‘‘، ’’اُجلے پاؤں میلے پاؤں‘‘اور ’’نیرنگی‘‘ ہیں۔ ان افسانوں میں موضوعاتی لحاظ سے اشتراک نہیں مگر ان کا موضوع انسانی طبع اور اُس کی بو قلمونی ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کا موازنہ اگر کِسی سے کیا جاسکتا ہے تو وہ غلام عباس ہیں اور یہ شاید اِس لیے کہ یہ دونوں افسانہ نگار بہت زیرک اور عمیق مشاہدے پر قادر ہیں۔ خواہ اُس مشاہدے کی نسبت انسانی عمل سے ہو یا وقت کے آگے ہی آگے سِرکنے اور موجود کی ہیئت کو بدل دینے سے ۔ ’’دروازہ‘‘ سے ’’نیرنگی‘‘ تک کِتنا کچھ ہے جو ان افسانوں کے درو بست کا حصہ ہے اور کتنا کچھ ہے جو اِن کی وساطت سے ہمارے اندر زندہ ہُوا ہے یا مَرا ہے۔ اِس لیے اُن کی قیمت ہمہ جہت اور لازوال ہے اور ہم عصر دانش کا استعارہ ہے۔
محمد جاوید انور کب سے لکھ رہے ہیں، مجھے معلوم نہیں مگر اُن کے مطالعے کی مدت بسیط ہے۔ یہ اندازہ میں نے اُن کے افسانوں کے مخفی خزائن سے لگایا۔ اُن کی تحریر میں ایک عجیب طرح کی تہ داری ہے، جیسے کوئی بہت ہی قیمتی چیز کسی بہت سی پَرتوں والے بُغچے میں لِپٹی ہو اور خوشبو دے رہی ہو۔ اِس کے لیے نافے کی مثال شاید درست نہ ہو کہ وہ اس طرح پرت در پرت ملفوف نہیں ہوتا۔ ہاں یاسمیں کے غُنچے سے کچھ مماثلت قرینِ قیاس ہے کہ اِن اِشارات میں وہی لطافت اور صباحت ہے۔
مجھے اُن کےسبھی افسانے اور افسانچے پسندآئے مگر ’’دروازہ ‘‘ ، ’’فیک‘‘ اور ’’نیرنگی‘‘ نے تو حق دق کر کے رکھ دیا کہ زندگی کا یہ پہلو میرے لیے بے حد مانوس رہا مگر مجھے اس کو برتنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ دروازہ میں سڑک کی طرف کھلنے والے دروازے کا بند کرنا اور کھولنا ایک بامعنی اور دل فریب استعارہ ہے جو سانس لیتے رہنے اور موجود کے جبر سے آزاد رہنے کی علامت ہے اور ’’فیک‘‘ میں ہمدمی کی کیفیت ایک گہری نفسیاتی حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے۔ جب کہ ’’نیرنگی‘‘ کا انجام مدنی معاشرت کے دیہی معاشرت اور طرزِ حیات پر غالب آنے کا غمّاز ہے۔ محمد جاوید انور نے زندگی اور معاشرت کی بدلتی قدروں کو بروقت موضوع بنایا ہے اور ایک باخبر اور خوش فکر ادیب کا یہی منصب ہے کہ وہ حیات و فکر کی ہر جُنبش سے آگاہ ہو اور اُس کے محرکات کو سمجھتا ہو۔
محمد جاوید انور کی خوبی یہ ہے کہ وہ دیہاتی اور شہری معاشرت سے یکساں آگاہ ہے۔ دیہات، وہاں کے گھر اور گلیاں، فصلیں ، موسم اور ان سب سے نمو پاتی معاشرت سے اُسے باطنی لگاؤ ہے اور شہر کی بو قلمونی ، استیصال ، بے مہری اور بے محابا ہوس کا عینی شاہد۔ اِس لیے اُس کادائرہ اثر بہت وسیع اور لافانی ہے اور ہمارے بدلتے ہوئے سماج کا آئینہ ہے۔ اُن کی کہانیاں کئی جہتوں میں نمو کرتی ہیں اور موجود کی حقانیّت کا پَرتو ہیں۔ اِس پر اُن کی دانش کی نمود ایک اضافی صفت ہے۔
محمد حمید شاہد، ڈاکٹر امجد طفیل اور خصوصاً جمیل احمد عدیل نے ’’سرکتے راستے‘‘ کے موضوعات اور اسلوب کا بہت عمدہ محاکمہ کیا ہے۔ اُن تینوں کا اختصاص یہ ہے کہ وہ فکشن نگار بھی ہیں اور فکشن کے صاحبِ طرز اور باخبر نقّاد بھی۔ ایک قاری کی حیثیت سے میں اُن کے آرا میں بس اس بات کا اضافہ کروں گا کہ ’’سرکتے راستے‘‘ رُوح کی تنہائی سے پیدا ہونے والی گھٹن کا استعارہ ہے اور محمد جاوید انور نے ’’سرکتے راستے ‘‘ کی علامت سے وجود کی تھکن سے زیادہ رُوح کی تھکن کو اُجاگر کیا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زندگی اور وقت کا منقّش پہیہ دونوں حرکت میں ہیں۔ محمد جاوید انور اِس امر کی حقانیت کو جانتے ہیں اور اُس کے ساتھ چلنے کی ضرورت کو بھی اور اُن کی کہانیاں اِسی طرزِ حیات سے جنمی ہیں۔