سوزسخن نہ ڈھونڈ کتابوں کے
ڈھیرمیں
میم سین بٹ….ہائیڈپارک
کتاب پڑھنے کا مزا سردیوں میں آتا ہے جس کے دوران ہم قہوے اورکافی کا دورچلاتے رہتے ہیں، ابلے انڈے،کاجو ،چلغوزے ،مونگ پھلی بھی ساتھ استعمال کرنے سے مطالعے کامزا دوبالاہوجاتا ہے جبکہ شدیدگرمی کے موسم میں تو ٹھنڈے مشروبات پیتے ہوئے بھی ہمارالکھنے پڑھنے کو جی نہیں چاہتا ہمیں مجبوراََ اخبارات کی فائل سرسری طور پردیکھنا پڑتی ہے ان دنوں بہارکے دوران کتاب میلوں کا سیزن جاری ہے، پنجاب یونیورسٹی کاکتاب میلہ تو25 اپریل سے شروع ہوگاگزشتہ دنوں پریس کلب کے کتاب میلے سے ہم نے اردواورانگریزی کی دوکتابیں خریدیں تو تیسری کتاب زیڈ اے بخاری کی ”سرگزشت“ کامریڈ ایس اے ہیرا نگری نے خریدکر ہمیں تحفے کے طور پردیدی جس پر ہم نے دن رات لگا کر پہلے سے جاری چارکتابوں کا مطالعہ مکمل کرڈالا تاکہ شدیدگرمی شروع ہونے سے پہلے پہلے ہم نئی کتابیں پڑھ سکیں ۔
نسرین انجم بھٹی پنجابی کی معروف شاعرہ تھیںکوئٹہ میں پیدا ہوئیں سکھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدپہلے لاہورکے نیشنل کالج آف فائن آرٹس اورپھر اسے چھوڑ کر اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا تھا انہوں نے ن م راشد پرایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا جو بعدازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا تھا تاہم نسرین انجم بھٹی نے اردو کے بجائے پنجابی شاعرہ کی حیثیت سے شہرت پائی ، ریڈیوکی ملازمت اختیارکی توپہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹرکا اعزاز حاصل کیا،انہوں نے رقص وموسیقی کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی تھی،مصورہ بھی تھیں،کچھ عرصہ شاکرعلی میوزیم کی ڈائریکٹر بھی رہیں، انہوں نے مارکسی دانشورصحافی زبیررانا سے محبت کی شادی کی اورکینسرکے باعث تین سال پہلے کراچی میں وفات پائی ان کا اردومجموعہ کلام ”بن باس “ جبکہ پنجابی نظموں کے تین مجموعے ”نیل کرائیاں نیلکاں“ ، اٹھے پہرتراہ“ اور ”شاملاٹ “شائع ہو ئے ، زاہد مسعود نے نسرین انجم بھٹی کی وفات کے بعدان کی یاد میں ”نسرین انجم بھٹی “ کے نام سے کتاب تیارکی جسے بک ہوم کے رانا عبدالرحمان اور ایم سرور نے شائع کیا ہے۔
کتاب کا پیش لفظ زاہد مسعود نے خود لکھا ہے انہوں نے نسرین انجم بھٹی کی ذاتی زندگی اورحالات تحریرکرنے کے علاوہ بطورپنجابی و اردوشاعرہ اور ان سے ملاقاتوں کا احوال بھی بیان کیا ہے،زاہد مسعودکے علاوہ کتاب میں مستنصرحسین تارڑ ، قاضی جاوید، ستارسید، پروین ملک، مسعود منور، ناصر بلوچ، غلام حسین ساجد ، پرفیسرسلیم الرحمان،خالد اصغر،شرجیل انظر اورزاہد حسن کے تعزیتی مضامین بھی شامل ہیں،مسعود منور نے اپنے مضمون میں نسرین انجم بھٹی کو تخت لاہورکی میرا بائی قراردیا ہے، کتاب کے آخرمیں نسرین انجم بھٹی کی شاعری کا انتخاب بھی شائع کیاگیا ہے انکے ایک گیت کا ٹکڑا دیکھئے ۔۔۔
پھل سجرے نت شریھاں دے
نت مٹھڑے ماپے دھیاں دے
اڈ اڈ کھلری خوشبوئی وے
میں نیندروں اٹھ اٹھ روئی وے
وفاقی سیکرٹری وچیئرمین ریلویزکے عہدے سے چند ماہ قبل سبکدوش ہونے والے جاوید انورادیب وشاعر بھی ہیں ان کے افسانوں اورشاعری کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں ان کی پانچویں کتاب ”سنو اے جاگنے والو“ ریٹائرمنٹ کے بعد اب حال ہی میں چھپی ہے یہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جسے ماوراءکے خالد شریف نے شائع کیا ہے ”سنو اے جاگنے والو“کاپیش لفظ شاعر نے خود اوردیباچہ اعتبارساجد نے لکھا ہے جبکہ فلیپ ڈاکٹر سعادت سعید اور پروفیسر حمیدہ شاہین نے تحریرکئے ہیں ان کے تعارف میں ناشرخالد شریف بتاتے ہیں کہ جاوید انورکے اس سے قبل دوشعری مجموعے ”اگر تم لوٹنا چاہو“ اور”کئی منظر ادھورے ہیں“ جبکہ دو ہی افسانوی مجموعے ”برگد“ اور ” سرکتے راستے “ شائع ہوچکے ہیں ،”سنو اے جاگنے والو“ کا انتساب شاعر نے جاگنے والوں کے نام کیا ہے ،خاموش ،سیاہ لمبی راتیں جن پر بھاری گزرتی ہیں !
جاوید انورکا تعلق بھی فیض احمد فیض کی دھرتی اور برادری سے ہے فیض کاتعلق نارووال کے تتلہ جاٹ جبکہ ان کا بوبک جاٹ قبیلے سے ہے، ان کے چھوٹے بھائی نیول کیپٹن نویدانورہمارے بڑے بھائی امتیاز کاشر المعروف گڈو بٹ پہلوان کے کلاس فیلو تھے جبکہ جاوید انوراورنوید انورکے والد چوہدری محمد انوربوبک گورنمنٹ ہائی سکول قلعہ سوبھا سنگھ میں ہمارے سیکنڈہیڈماسٹر رہے تھے، چوہدری محمد انوربوبک نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کرکے اپنے دوستوں خواجہ صاحب اورمرزا صاحب کے ساتھ مل کرنارووال شہر میں ظفروال بائی پاس کے قریب مسلم ہائی سکول قائم کیا تھا جسے بھٹودورمیں قومی ملکیت میں لئے جانے کی وجہ سے چوہدری انور بوبک محکمہ تعلیم کے سرکاری استاد بن گئے تھے درس وتدریس کا پیشہ انہیں شروع سے ہی پسند رہاتھا اوراس کی خاطر انہوں نے آزادی کے چند برس بعد ریاست بہاولپورکی جانب سے براہ راست ڈی ایس پی بھرتی ہونے کی پیشکش قبول نہ کی تھی ۔
جاوید انور نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھامگر ان کی اردو ادب سے وابستگی لائق تحسین ہے اعتبارساجد دیباچے میں بتاتے ہیں کہ جاوید انور نے پروفیسر شہرت بخاری اور آسی ضیائی سے اردو، فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی !حلقہ ارباب ذوق سے بھی جاوید انورکا دیرینہ تعلق رہا ہے سیکرٹری ریلویزکی حیثیت سے بھی حلقے کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں ہم فیس بک پر ان کی شاعری پڑھتے رہے ہیں سعید الحق ملک بھی اپنے گرائیں کے بارے میں فیس بک پرکچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں گزشتہ دنوں پریس کلب میں چیئرمین ادبی کمیٹی ذوالفقارمہتو کی دعوت پر جاوید انور کتاب میلہ کا افتتاح کرنے آئے تو ان کے ساتھ خصوصی نشست رہی ان کا تیسرا شعری مجموعہ ”سنو اے جاگنے والو“ غزلوں اورنثری وآزاد نظموں پرمشتمل ہے اس میں شامل دوشعر ہمیں بےحد پسند آئے۔۔۔
بڑی مشکل سے بنتا ہے فسانہ
بڑا آسان ہے باتیں بنانا
شاعری کھا گئی وفور مرا
ہائے مجھ کو فسانہ لکھنا تھا
ماہنامہ فانوس لاہورسے شائع ہونے والا قدیم ادبی رسالہ ہے جسے امرتسری شاعرمیاں قدیرشیدائی نے 1960ءمیں جاری کیا تھا اب اس کے ناشرومدیراعلیٰ شکورطفیل ،مدیر خالد علیم، نائب مدیرمحسن فارانی جبکہ مدیران معاون ندیم سرور اورمدثر قدیرہیں، گزشتہ ماہ ماہنامہ فانوس کا بانی کی یاد میں ”قدیرشیدائی نمبر“ شائع ہوا ہے جس میں ڈاکٹرخواجہ زکریا، شہزاد احمد شہزاد، یعقوب پرواز،حامد یزدانی ،خالد علیم نوید صادق، شکور طفیل،سالار مسعودی کے قدیرشیدائی پرمضامین شائع کئے گئے ہیں اس کے علاوہ مرزا غالب پرمظفرحنفی، فہمیدہ ریاض پرحمیراحیات ،علی اصغرعباس پرحامد یزدانی، امریکہ پرمحسن فارانی اور انورنیازی پر شکورطفیل کی تحریریں بھی شامل اشاعت ہیں حالانکہ انہیں کسی عام شمارے میں ہونا چاہیے تھا اس شمارے میں قدیرشیدائی (مرحوم) کا مضمون ”وادی کشمیر اورخانوادہ گورنر خوشی محمد ناظر“ خاصے کی چیزہے ”فانوس “ کے خصوصی شمارے میں قدیر شیدائی کا منتخب کلام بھی شامل کیا گیا ہے ان کی ایک غزل کا شعر ہے ۔۔۔
سوزسخن نہ ڈھونڈکتابوںکے ڈھیرمیں
یہ دین ہے خدا کی ، کمال و ہنر نہیں
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)