جناب جاوید انور صاحب کا تفصیلی انٹرویو 10 نومبر 2016 کے روزنامہ جرات میں شائع ہوا..
محبت ،امید، انسانیت اور شگفتگی کاشاعر ” جاوید انور“
انٹرویو: ساجد ہدایت
جاوید انور( محمد جاوید انور بوبک) کی شاعری انسانیت، محبت، امید، فقر اورشگفتگی کی شاعری ہے جس میں معافی کی مختلف جہات وابعاد نئے نئے رنگ ومزاج میں آشکار ہوتی دکھائی دیتی ہیں، جوجاوید انور کوان کے ہم عصر ممتاز شعراءکی صف میں لاکھڑا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان کی لفظیات کی سادگی، بھرپور تخلیقی وفور سے مل کر جس انداز سے ”محبت ہجر، وصال، دانش ِ دہر، اخلاقِ عشق ، اداسی اورامید “کے مسائل و موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، اس میں اکہرے مفہوم کی بجائے کثرتِ معنی کی صفت در آئی ہے۔ اس نابغۂ فن سے ایک تفصیلی انٹرویو کی نشست رہی جوآپ کی نذر ہے۔
سوال:آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب:میں یکم فروری1959ءکو ضلع سیالکوٹ (حال ضلع نارووال)کے گاؤں بوبک مرالی میں پیدا ہوا۔
سوال:خاندان
جواب:میں ایک متوسط زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمارا گھرانا متمول اور تعلیم یافتہ تھا۔ میرے والد ، چچا اور تایا مَرے کالج سیالکوٹ سے گریجوایٹ تھے۔ میرے والد مختلف شعبوں میں مختصر ملازمت کے بعد اپنی پسند سے بالآخر شعبہ تدریس سے منسلک ہوئے۔
سوال:ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کہاں کہاں سے حاصل کی؟
جواب:میں نے مڈل تک اپنے گاؤں کے گورنمنٹ سکول سے پڑھا۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نارووال ، انٹرمیڈیٹ اپنے پرانے خاندانی مادرِ علمی مَرے کالج سیالکوٹ ، گریجوایشن اسلامیہ کالج سِول لائن لاہور اور انگریزی ادبیات میں ماسٹرز پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔
سوال:بچپن میں آپ شرارتی بچے تھے یا بھولے بچے تھے؟
جواب:میں نہ شرارتی تھا نہ بھولا، میں ایک سلجھا ہوا عام بچہ تھا۔
سوال:بچپن کا کوئی یادگار واقعہ بتائیں۔
جواب:جب میں بہت چھوٹا تھا تو ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں تھا۔ لڑکیوں کا پرائمری سکول منظور ہوا تو اس کے لیے جگہ تھی نہ عمارت۔ ہمارے گھر کے ساتھ ہماری چھوٹی سی حویلی تھی۔ میرے والد نے بچیوں کے سکول کے لئے مناسب عمارت کی تعمیر تک حویلی میں سکول قائم کرنے کی اِجازت دے دی۔ وہاں ایک ہی استانی شانتی نامی تعینات ہوئیں۔ وہ دِن کو بچیوں کو پڑھاتیں اور رات اپنے بزرگ والد کے ساتھ حویلی ہی میں قیام کرتیں۔میں اپنا قاعدہ لیے ان کے گِرد پھرتا رہتا اور وہ مجھے وقت کی تخصیص کے بغیر پڑھاتیں اور تختیاں لکھواتی رہتیں۔ میری والدہ کہتیں ، بیچاری کو اپنے گھر پہ کام تو کر لینے دو لیکن مِس شانتی مجھے کبھی نہ روکتیں ، مجھے نہیں معلوم کہ ان کا مذہب کیا تھا ، لیکن نام سے لگتا ہے کہ وہ عیسائی یا ہندو ہوں گی۔ ان سے ہر وقت پڑھنے کا یہ اثر ہوا کہ جب میں گاؤں کے سکول داخلے کے لیے پہنچا تو اساتذہ نے یہ تعین کیا کہ میں پہلی جماعت پڑھنے کے قابل نہیں بلکہ براہِ راست تیسری جماعت میں داخل کیے جانے کے قابل ہوں۔ میری عمر کے لحاظ سے اور قواعد کے مطابق اِس کی اِجازت نہیں تھی۔ پھر بتایاگیا کہ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر صاحب یہ اختیار رکھتے ہیں کہ کسی بچے کا ٹیسٹ لے کر اسے کسی بھی جماعت میں براہِ راست داخلے کے قابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیں۔ سو میرا ٹیسٹ ہوا ، اور مجھے براہِ راست تیسری جماعت میں داخلے کے قابل ہونے کا سرٹیفکیٹ تفویض ہوا۔ نتیجتاً میں براہِ راست تیسری جماعت میں داخل ہوا۔ کم عمری میں پڑھنے کا فائدہ مجھے اَب تک ہے کہ میں بائیس سال کی عمر میں ماسٹرز کر کے سینٹرل سپیریئر سروسز کا مقابلے کا امتحان پاس کرکے سِول سروسز اکیڈیمی پہنچ چکا تھا۔ میرے اس فائدہ کیلئے ذمہ دار میری محسن مِس شانتی کے بارے میں میں پھر کبھی نہ جان پایا کہ وہ کہاں چلی گئی تھیں۔یہ حالات و واقعات مجھے یاد آتے ہیں تو اپنے زمانے کے اَساتذہ کی بے لوث خدمات یاد آتی ہیں۔
سوال:لڑکپن کیسے گزار ا، اور اس کا کوئی یادگار واقعہ؟
جواب:لڑکپن دیہاتی ماحول ، کھیت کھلیانوں ، کھیل کود اور تعلیم میں گزرا۔ میٹرک کے بعد باقی تعلیمی زندگی ہوسٹلز میں گزری۔ پوری زندگی ہی یادگار رہی ہے۔کوئی انتخاب نہیں کر پارہا کہ کون سا واقعہ یادگار تھا۔
سوال:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بچپن اور لڑکپن کی اٹھان ہی انسان کی شخصیت سازی میں اہم ہے؟
جواب:جی یہ درست ہے، لیکن میرا تجربہ ہے کہ انسان ساری زندگی ہی سیکھتا ہے اور جو سیکھتا ہے وہ اس کی شخصیت میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ یہ عمل بچپن اور لڑکپن کے بعد بھی رکتا نہیں۔
سوال:شاعری کَب شروع کی اور آپ کا پہلا شعر کونسا تھا؟
جواب:غالباً میٹرک کے دِنوں میں کچھ اشعار کہے تھے، جو ضائع ہوگئے۔ اسلئے اولین کلام محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے اَب یاد نہیں کہ کیا سب سے پہلے لکھا تھا۔ جب میں مَرے کالج میں پڑھتا تھا تو وہاں ہمارے اردو کے پروفیسر آسی ضیائی رام پوری تھے۔ وہ بڑے نستعلیق اور نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ سفید پائجامہ اور شیروانی پہنتے اور پان شوق سے چباتے۔ اردو کے انتہائی قابل استاد تھے۔ مجھے سائنس اور میتھیمیٹکس زیادہ پسند نہیں تھے اور اَدب سے دلچسپی تھی جو مہمیز ہوئی۔ میں نے وہیں پر فیصلہ کیا کہ میں ادبیات کا طالب علم بنوں گا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز میں پروفیسر سید شہرت بخاری اردو اور فارسی پڑھاتے تھے۔ میں نے انشائیہ، غزل اور نثری نظم لکھ کر انہیں دِکھانا شروع کیا۔ کچھ نگارشات اس وقت کے جرائد، اخبارات اور کالج میگزین وغیر ہ میں چھپیں۔ وہی میرے باقاعدہ لکھنے کا آغاز تھا۔ عروضی شاعری جناب محمد اسلم کولسری صاحب کو بھی دِکھائی۔ میرے کلام میں فطری طور پر اغلاط شاز ہی نکلتیں۔
سوال:آپ کا تصور ِ شعر کیا ہے؟
جواب:شعر تو بس شعر ہے ، اس کو اسلوب ، مفہوم اور نغمگی کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔
سوال:غزل اور نظم ، کس میں آپ اپنے خیالات کو بہتر بیان کرتے ہیں؟
جواب:میں نے عروضی اور غیر عروضی ہر دواسلوب میں شاعری کی ہے۔میرے شعری مجموعہ “اگر تم لَوٹنا چاہو” میں غزلیں اور نظمیں ہیں۔کبھی میرا دِل غزل کہنے پہ مائل ہوتا ہے اور کبھی میرے خیالات کی رَو مجھے نظم کہنے پر اکساتی ہے۔ میرے خیال میں دونوں اصناف مناسب مہارت حاصل ہونے پر شاعر کو اپنا مطمع نظر بیان کرنے کا موقع دیتی ہیں۔
سوال:آپ آزاد اور نثری نظم کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
جواب:آزاد اور نثری نظم مستقبل کی اصناف ہیں۔ مجھے یہ اصناف پنپتی اور کشادگی پاتی نظر آتی ہیں۔یہ مقبول ہوں گی۔
سوال:آپ تصورِ محبوب کو حقیقی یا مجازی کِن معنوں میں لیتے ہیں؟
جواب: یہ کوئی معیوب نہیں کہ محبوبِ حقیقی کی مدح سرائی کرکے آپ محبوبِ مجازی سے اظہار الفت نہیں کرسکتے۔ یہ فطری ہماہمی اورنیرنگی ہے، اسی خالق کی تخلیق ہے جو محبوب حقیقی ہے ۔ مجاز حقیقت کاہی پرتو ہے اورحقیقت توہے ہی حقیقت۔
سوال:شاعری میں آپ روایت کے قائل ہیں یا اختراع کے ؟
جواب:جب روایت پختہ ہوتی ہے تو اختراع کے راستے کھلتے ہیں۔ آپ کسی بھی سِمت، کسی بھی اسلوب کو مقید نہیں رَکھ سکتے۔ تنوع اور اختراعات روایت ہی میں سے پھوٹتی ہیں۔
سوال:کلاسک میں کِن شعراءکو آپ اردو شاعری کا سرخیل سمجھتے ہیں؟
جواب:میں شعراءکی درجہ بندی اور حتمی پسند نا پسند کا قطعی قائل نہیں۔ میں سبھی کو پڑھتا ہوں اور سبھی میں ان کے اسلوب ، تخیل اور معانی کی ہمہ جہتی و رنگارنگی سے لطف اندوز بھی ہوتا ہوں اور فیض یاب بھی۔ مجھے مرزا اَسداللہ خاں غالب، فیض احمد فیض ، احمد فراز، جون ایلیا اور انشاءجی بہت پسند ہیں۔
سوال:آپ کے نزدیک اِس صدی کا سب سے بڑا غزل اور نظم کا شاعر کون ہے؟
جواب:میں دونوں اصناف میں بہت سے شعراءسے متاثر ہوں لیکن کسی ایک کو بھی سب سے بڑا مقرر کردینے کا نہ اہل ہوں نہ قائل ہوں۔
سوال:آپ شاعری میں آورد کے قائل ہیں یا الہام کے۔
جواب:میرا یہ تجربہ ہے کہ جب کیفیت بنتی ہے تو شاعری اترتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی شاعر مختصر وقت میں بہت کچھ کہہ لیتا ہے اور کبھی بڑے لمبا عرصہ تک کچھ بھی نہیں کہہ نہیں پاتا۔
سوال:آپ کی شاعری کے محرکات کیا ہیں؟
جواب:میری شاعری کا ایک ہی محرک ہے اور وہ ہے میرا انسان ہونا۔
سوال:آپ اِن عظیم شعراء کی فہرست کس ترتیب سے مرتب کریں گے، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، احمد فراز، منیر نیازی، عبید اللہ کریم ، محسن نقوی، قتیل شفائی، جون ایلیا۔
جواب:اتنے بڑے بڑے لوگوں کے نام گنوا کر مجھ سے ترتیب لگوانا قطعی روا نہیں۔ مجھے یہ سب اچھے لگتے ہیں۔ یہ سب بڑے لوگ تھے۔ اور سب کا اپنا مقام ہے۔ اِن میں اول ، دوئم ، سوئم قرار دیناایک مضحکہ خیز اور سخت قابلِ اعتراض فعل ہوگا۔ یہ کیا کوئی سو میٹر کی دوڑ ہورہی ہے کہ کون آگے نکل گیااور کون دو قدم پیچھے رہ گیا۔
سوال:کیا رومانیت کا تعلق شاعر کی عمر سے ہوتا ہے یا پھر اس کی میلانِ طبع سے
جواب:میری عمر خاصی ہو پائی ہے۔ میرے خیال میں عمر ، رومانیت پر کچھ اثر نہیں ڈالتی۔ مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ انسان میں ٹھہراؤ اور گہرائی ضرور پیدا کرتا ہے۔ رومانیت وہیں کی وہیں رہتی ہے۔
سوال:آپ کی شاعری میں محبت، انسانیت، امید ، جستجو اور شگفتگی کا عنصر غالب ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب:وجہ بس یہ ہے کہ انسانیت ، امید، جستجو اور شگفتگی بہت اہم ہیں۔
سوال:یاسیت اور ناامیدی ، دکھ و کرب آپ کی شاعری میں ناصحانہ انداز میں بیان ہوتا ہے۔ آپ کا مخاطب آپ ہوتے ہیں یا قاری و سامع۔
جواب:یاسیت ، ناامیدی ، دکھ اور کرب اتنی ہی بڑی حقیقتیں ہیں ، جتنی امید، جستجو اور شگفتگی۔ میرا مخاطب میں بھی ہوتا ہوں اور قاری و سامع بھی۔ میں نہ اپنے کلام کی تفہیم و ترسیل کو محدود رکھتا ہوں نہ مقید۔ یہ انسان کی باتیں ہیں۔ انسانوں کے لئے ہیں۔ انسان لکھتا ہے ، انسان ہی پڑھتے ہیں۔
سوال:آپ اچھے شاعر اور مشہور شاعر کی تفریق کیسے کریں گے؟
جواب:اچھا اور مشہور ہونا کبھی علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کبھی یکجا۔ اچھا تو اچھا ہی رہتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کبھی اچھا مشہور نہیں ہوپاتا۔ لیکن یہ بہر طور دیکھا ہے کہ کچھ نا اچھے بھی مشہور ہوجاتے ہیں۔
سوال:آپ کو شاعری کرتے ہوئے لگ بھگ پینتیس سال ہوچکے ہیں کیا وجہ ہے کہ آپ کا پہلا مجموعہ کلام “اگر تم لَوٹنا چاہو ” اب شائع ہوا ہے۔
جواب:میں نے کبھی چھپنے کی نیت سے نہیں لکھا تھا۔ لکھتا تھا اور رَکھ چھوڑتا تھا۔ کچھ کلام اسی طرح ضائع بھی ہوگیا۔ سِول سروس میں آنے کے بعد چاروں صوبوں میں سروس کی اور جان توڑ محنت کی۔ اپنے لیے اور اپنے شوق کیلئے بہت محدود وقت ملا۔ نوکری کے اس دور میں کچھ لکھنے لکھانے والے ایسے رفقاءکار ملے جنہوں نے مجھے آمادہ کیا کہ لکھا ہوا چھپوالینا چاہیے تاکہ ضائع نہ ہوجائے۔ اپنا کلام جب کچھ مستند شعراءکو دکھایا تو انہوں نے اسے پسند کیا اور چھپوانے کی تلقین کی۔ میرے ساتھی افسران اور عملہ کے ساتھیوں نے ہمت دِلائی تو یہ کلام چھپ گیا۔ میں افسانے بھی لکھتا ہوں اور افسانہ نگاری مجھے بہت پسندہے۔ عین ممکن ہے کہ جلد میرے افسانوں کا مجموعہ بھی چھپ جائے۔
سوال:آپ نے شادی کَب کی ؟ کیا آپ نے شادی پسند سے کی یا اپنے والدین کی مرضی سے؟
جواب:میرے والدین نے اپنی پسند اور میری مرضی سے میری شادی طے کی۔ میں اور میری اہلیہ منگنی سے قبل ایک دوسرے سے ملے تھے نہ جانتے تھے۔ اَب سوچتا ہوں اگر خود ڈھونڈنے نکلتا تو شاید ایسی شریکِ حیات نہ ڈھونڈ پاتا جو میرے والدین نے میرے لئے چنی وہ میرے لئے میرے گھر کو جنت بنانے اور زندگی کو راحت اور سکون سے بھرنے والی ثابت ہوئیں۔
سوال:آپ کے کتنے بچے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟
جواب:میرے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی ہے ، وہ کم عمری ہی میں ایک ناول کی مصنفہ بن چکی ہے۔ انگریزی ادبیات میں یونیورسٹی آف ویسٹ ورجینیا میں کری ایٹورائیٹنگ میں ماسٹرز اِن فائن آرٹس (ایم ایف اے)کررہی ہے۔ اس سے چھوٹے بیٹے نے آغا خان میڈیکل یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا ہے اور امریکہ میں ریزیڈینسی کے لئے گیا ہے۔ سب سے چھوٹے بیٹے نےLUMSسے گریجوایشن کیا ہے اور اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگومیں پوسٹ گریجوایشن کر رہا ہے۔
سوال:آپ کے نزدیک اردو شاعری کا کیا مستقبل ہے؟
جواب:مجھے اردو شاعری کا مستقبل رَوشن نظر آتا ہے۔ بہت سے نئے شعراءلکھ رہے ہیں۔ مجھے صرف یہ گلہ ہے کہ معیاری کم لکھا جارہاہے۔ کثرت سے زیادہ معیار ہی اس بات کا ضامن ہوسکتا ہے کہ کوئی صنف یا کوئی زبان ترویج پائے اور قائم رہے۔ بہرحال میں اِس بات سے متفق ہوں کہ تھوڑا سا لکھنے کے لئے پہلے بہت سا پڑھنا چاہیے اور بہت کچھ دیکھنا چاہیے۔ اگر اس بات کی سمجھ ہمارے نئے لکھنے والوں کو آگئی تو مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔
سوال:آپ کے نزدیک وہ کون سی اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اردوشاعری کو عالمی پذیرائی اور اعزازات سے نہیں نوازا جارہا۔
جواب:اردوشاعری میں موضوعات کا تنوع اور ہمہ گیریت آئے گی تو عالمی پذیرائی اور قبولیت حاصل ہوگی۔ حکومت کو بھی اَدب دوست رویہ اپنانا ہوگا۔ لکھنے والوں کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ عالمی اَدب میں جگہ پانے اور اعزازات اور پذیرائی کے حصول کے لئے معیار اور ترویج اولین شرائط ہیں۔
سوال:ادیب اور شاعر کی معاشی حالت میں سدھار کیسے لایا جاسکتا ہے؟
جواب:موجودہ حالات میں لکھنا ایک جرم اور چھپنا ایک سزا بن چکا ہے۔ جو لکھتا ہے ، پھر چھاپنے والے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ عام طور پر اپنے پیسے خرچ کر کے کتاب چھپواتا ہے جو پتا نہیں بِکے یا نہ بکے۔ ناشر حضرات لکھنے والوں سے عموماًاچھا سلوک رَوا نہیں رکھتے۔ آج کل بس یا تو عامیانہ قسم کے قسط وار ڈرامے لکھیں یا ڈائجسٹی اَدب تخلیق کریں تو شاید گزران ہو۔ لکھنے والوں میں چند ایک ہی ہوں گے جو اس شغل سے روزی روٹی کا بندوبست کرپائیں۔ جو لوگ حصولِ رزق کے لیے تو کوئی اور کام کرتے ہیں اور شغل کے لئے یا اپنی تخلیقی اور ادبی صلاحیت کو بطور مشغلہ استعمال کرنے کے لیے لکھتے ہیں وہ زندگی گزار پاتے ہیں۔ صرف اور صرف لکھ کر زندگی کی ضروریات پوری نہیں کی جاسکتیں۔ مستقبل قریب میں بھی مجھے یہ صورت حال بدلتی نظر نہیں آتی۔ اس شعبہ کی نگہداشت کے لیے قائم سرکاری شعبہ جات بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس میدان میں حکومتی اور سماجی سطح پر بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کوئی لکھنے والا صرف اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے بَل بوتے پر معاشی طور پر گزران کرسکے۔
****