جاوید انور کی شاعری اور افسانے
– حامد ریاض ڈوگر – September 23, 2018
محمد جاوید انور سے یک طرفہ شناسائی تو کم و بیش ساڑھے تین دہائیوں پر محیط ہے جب وہ ایک جونیئر افسر کی حیثیت سے اسسٹنٹ ٹرانسپورٹیشن آفیسر کے طور پر پاکستان ریلوے کے لاہور ڈویژن میں خدمات انجام دیا کرتے تھے، اور ایک نوآموز اخبار نویس کی حیثیت سے ڈویژنل آفس لاہور کے چکر لگانا راقم الحروف کا معمول تھا۔ پھر ملازمت کی مجبوریوں کے تابع بیوروکریسی کے دیگر کل پرزوں کی طرح گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے، شہر شہر کی خاک چھاننے اور ملکوں ملکوں گھومنے کے بعد زینہ بہ زینہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے جب وہ ریلوے کے سینئر جنرل منیجر یعنی چیف ایگزیکٹو آفیسر کے منصب پر فائز ہوئے تو مختلف پریس کانفرنسوں اور بریفنگز میں ان سے ملاقاتیں ہماری پیشہ ورانہ مصروفیات کا حصہ رہیں۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر کی حیثیت سے ریلوے کے تنزل و ترقی اور تکنیکی امور پر ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ کبھی اندازہ تک نہ ہوا کہ اپنے کام سے کام رکھنے والا، بظاہر سنجیدہ طبیعت کا مالک یہ افسر کوئی ادبی ذوق بھی رکھتا ہوگا۔ حیرت کے در تو اُس وقت وا ہوئے جب ہمارے دیرینہ دوست، حج کے سفرِ سعادت کے رفیق، محنت کشوں کے مخلص قائد، ریلوے کی سودا کار ’’پریم‘‘ یونین کے مرکزی سینئر نائب صدر شیخ محمد انور کی وساطت سے جناب جاوید انور کے افسانوں کا مجموعہ ’’برگد‘‘ اور شعری مجموعہ ’’کئی منظر ادھورے ہیں‘‘ نظر نواز ہوئے۔ جب کہ عروضی اور غیر عروضی شاعری پر مشتمل ان کا مجموعہ ’’اگر تم لوٹنا چاہو‘‘ بھی ادبی حلقوں میں قبولِ عام حاصل کرچکا ہے۔ کتابوں کے سرسری مطالعے سے ہی دل سے بے اختیار یہ صدا بلند ہوئی ’’یارب ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی‘‘… اب وہ ریلوے کے چیئرمین اور وزارت کے سیکرٹری بن کر اسلام آباد منتقل ہوگئے ہیں، مگر یہ ان کی محبت اور خلوص ہے کہ اس خاکسار کو فراموش نہیں کیا اور افسانوں کا تازہ ترین مجموعہ ’’سرکتے راستے‘‘ اگست 2018ء میں اشاعت کے فوری بعد شیخ انور صاحب ہی کے توسط سے ارسال فرمایا ہے، اور یہ ان کا اخلاص پر مبنی تعلقِ خاطر ہی ہے جس نے قلم اٹھانے اور یہ سطور تحریر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ جاوید انور کی ادبی کاوشوں کی پے در پے اشاعت نے یقینا ادبی حلقوں میں ایک مثبت ارتعاش پیدا کیا ہے اور کیفیت علامہ اقبال کے الفاظ میں کچھ یوں ہے ؎
جرس ہوں نالہ خوابیدہ ہے مری رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے
’’کئی منظر ادھورے ہیں‘‘ کی دوسری غزل کا مطلع ہے، جس میں شاید جاوید انور نے اپنی اب تک کی گمنامی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ؎
گر نہ مغرور ہو گئے ہوتے
ہم بھی مشہور ہو گئے ہوتے
ڈاکٹر جواز جعفری کی رائے تاہم قدرے مختلف ہے، جس کا اظہار انہوں نے کتاب کے سرورق کے، اندرون میں ان الفاظ میں کیا ہے: ’’جاویدانور کا تعلق شاعری کے اس درویش منش گروہ سے ہے جو مین اسٹریم کا حصہ بننے پر اصرار کیے بغیر اور نام و نمود کی مریضانہ خواہش کو ایک طرف رکھ کر گوشہ نشینی اختیار کرتے ہوئے تخلیقی عمل کے لیے خود کو وقف کیے رکھتے ہیں۔ ’’کئی منظر ادھورے ہیں‘‘ کی غزل میں سادگی اور پرکاری کا امتزاج اپنے اندر قادرالکلامی کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ غزل اپنی لفظیات، موضوعات، طرزِ احساس اور آب و ہوا کی تشکیل کے دوران روایت کے ابلتے چشموں سے سیراب ہوئی ہے۔ جن غزلوں میں جاوید انور نے مشکل قوافی کا التزام کیا ہے وہاں ان کی غزل کا تخلیقی جغرافیہ جدید غزل سے جا ملتا ہے۔ رائیگانی اور لاحاصلی کا ملال، عصری شعور کی زیریں لہر، آزادیٔ اظہار کے حوالے سے سیاسی و سماجی جبر اور اس جبر کے خلاف شاعری، مزاحمتی لہجے کی توانائی، روایت سے انسلاک قائم رکھتے ہوئے اس غزل کا رشتہ اپنے عصر سے استوار کرتی ہے۔ روایت اور جدت کے درمیان یہی وہ تخلیقی توازن ہے جو جاویدانور کی غزل کا اختصاص قائم کرتا ہے۔
جاوید انور نے تعلیمی لحاظ سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز ڈگری جامعہ پنجاب لاہور سے حاصل کی، تاہم انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو اور فارسی اپنے وقت کی نابغۂ روزگار ہستیوں پروفیسر شہرت بخاری اور امان اللہ خاں آسی ضیائی رام پوری سے پڑھیں۔ یہ دونوں اساتذہ نظریاتی لحاظ سے اگرچہ بعد الطرفین رکھتے تھے، پروفیسر شہرت بخاری اگر معروف معنوں میں بائیں سے متعلق تھے تو پروفیسر آسی ضیائی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی برپا کردہ اسلامی تحریک سے وابستگی پر تاحیات فخر کرتے رہے، تاہم دونوں کا علمی مقام و مرتبہ مسلمہ تھا۔ جاوید انور نے 1982ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد ریلوے میں ملازمت کا آغاز کیا اور آج اس محکمہ کے چیئرمین کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں اور طویل عرصے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ریلوے سروس کا کوئی افسر اس منصب تک پہنچا ہے۔ ملازمت کے دوران چاروں صوبوں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا اور بیسیوں دوسرے ملکوں کے سفر کا موقع بھی انہیں ملا، جس سے ان کے مشاہدے میں وسعت ایک فطری امر ہے، اور اس کا اظہار نثر و نظم میں ان کی ادبی کاوشوں میں بخوبی ہوتا ہے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق انہوں نے مختصر مدت میں ادبی حلقوں میں اپنا مقام بنایا اور منوایا ہے۔ ان کے بعض افسانے غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوکر پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ جاوید انور کی شاعری اور افسانوں کے مجموعوں پر نقد و جرح کرنے والوں میں اسد محمد خاں، شکیل عادل زادہ، محمد حمید شاہد، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر امجد طفیل، عرفان جاوید، محمود ظفر، اقبال ہاشمی، محمد ہاشم خاں، مشرف عالم ذوقی، مشتاق احمد نوری، غلام حسین، ساجد علی، اکبر ناطق، جمیل احمد عدیل، اسلم کولسری مرحوم، ڈاکٹر جواز جعفری اور عباس تابش جیسے ممتاز و مستند شاعر و ادیب اور نقاد حضرات شامل ہیں، جس سے ان کے ادبی مقام و مرتبے کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
144 صفحات پر مشتمل جاوید انور کے تازہ مجموعے ’’سرکتے راستے‘‘ میں سولہ افسانوں کے علاوہ نو افسانچے بھی شامل ہیں۔ کتاب کے آغاز میں مصنف کے پیش لفظ کے علاوہ ممتاز ادیب و نقاد حضرات محمد حمید شاہد، جمیل احمد عدیل اور ڈاکٹر امجد طفیل کے تعارفی و تنقیدی مضامین ہیں، جب کہ بھارت کے نامور افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر عبدالوحید رانا اور غلام حسین ساجدکی آرا فلیپ کی زینت ہیں۔ محمد حمید شاہد نے ’’ایک اور تخلیقی جست‘‘ کے زیر عنوان کتاب کا تعارف کراتے ہوئے بجا اور جچی تلی رائے دی ہے کہ ’’محمد جاوید انور کے پہلے مجموعے ’’برگد‘‘ کے افسانوں کو پڑھ کر میں نے کہا تھا کہ انہیں اپنی بات کہانی میں ڈھالنے کا ہنر آتا ہے، اور یہ بھی کہ وہ اپنے بیانیے سے کہانی کو افسانے میں منقلب کرکے زندگی کی گہری علامت بنا لیتے ہیں۔ اس تازہ مجموعے میں کچھ افسانے ایسے ہیں جن میں انہوں نے اپنے اس جوہر کو کچھ اور خوبی سے برت کر مجھے احساس دلایا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر ایک مقام پر رکا ہوا نہیں ہے، انہوں نے آگے کی سمت جست لگائی ہے۔ مثلاً افسانہ ’’سرکتے راستے‘‘ میں انہوں نے زبان کو کچھ اس قرینے سے برتا ہے کہ خیال کی لطیف طرفیں کھل کر واقعہ ہو گئی ہیں، یعنی واقعہ نہیں ہے مگر واقعہ بنا ہے، یوں جیسے شام کے وقت جھیل کے شفاف پانی کی سطح کو کوئی نگاہ میں نہ آنے والا جھینگر چھوتا، چھچھلتا نکل جائے۔ افسانہ ’’مہا بندر‘‘ میں زبان کے بجائے یہی کام جنگلی حیات کے مفصل بیان سے یکلخت نئے منظرنامے میں جست لگاکر اسے انسانی صورت حال سے جوڑ لینے کی تیکنیک برت کر لیا گیا ہے۔ یقین جانیے کہ زبان، تیکنیک اور اسلوب کے یہ محض پینترے نہیں ہیں جو جاوید انور نے اپنے قاری کو مرعوب کرنے کے لیے برتے ہیں، بلکہ یہ ان کا، اپنے تخلیقی عمل کے تحرک سے متن کی ایک سے زائد سطحیں بنا لینے کا وہ بھیدوں بھرا قرینہ ہے جو کم کم تخلیق کاروں کا مقدر ہوتا ہے…‘‘
محمد جاوید انور کے لیے یہ امر بھی یقینا باعثِ فخر ہوگا کہ ان کی تینوں کتابوں ’’برگد‘‘، ’’کئی منظر ادھورے ہیں‘‘ اور ’’سرکتے راستے‘‘ کے سرورق باکمال خطاط جناب اسلم کمال کے موئے قلم کے شاہکار ہیں۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ان کی تمام کتب معروف و ممتاز شاعر خالد شریف کی زیر نگرانی ’’ماورا پبلشرز‘‘ جیسے ہر لحاظ سے معیاری کتب کی اشاعت کی شہرت رکھنے والے ادارے نے شائع کی ہیں۔ توقع ہے کہ ان کی آنے والی ہر کتاب کو علمی و ادبی حلقوں میں پہلے سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوگی۔