1,185

محمد جاوید انور کا فکشن از غلام حسین ساجد

محمد جاوید انور کا فکشن
غلام حسین ساجد
’’سرکتے راستے “ محمد جاوید انور کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ اطلاع اس لیے اہم ہے کہ وہ شاعر بھی ہیں اور ایک بہت متحرک اور فعال افسر بھی اور تین ہی برس میں شاعری اور فکشن کے چار مجموعے شائع کر کے خیال اور عمل کی رفتار کو یک جان کر چکے ہیں۔اُن کے افسانوں کے مجموعے ’’برگد‘‘ پر ایک مُختصر شذرے میں مَیں نے عرض کیا تھا کہ اُن کے یہاں اچھا فکشن نگار ہونے کی سَبھی خوبیاں موجود ہیں۔ کہانی بُننے اور کہنے کی فطری صلاحیت اور اس پر مُستزاد نہایت گُتھی اور نپی تُلی نثر لکھنے کی مہارت۔ وہ وضاحتی اور بے قابو پھیلاؤ سے مملو تحریر پر بھروسہ نہیں کرتے اور زندگی کی بڑی حقیقتوں کو ’’بونسائی‘‘ کر کے اپنی زنبیل میں ڈالتے اور ایک پر معنی کُشادہ منظر کی طرح قاری کے ادراک میں پھیلا دیتے ہیں کہ موضوع کا ظاہر و باطن لَو دینے اور اُس کی حقیقی تفہیم کا پھول بے ساختہ مہک کر خوشبو بانٹنے لگتا ہے۔ایسی برمحل اور بامعنی نثر لکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ خاص طور پر جب لکھنے والے کے پیش نظر بات کو کم سے کم لفظوں میں کہنے کا ہدف ہے۔ اِس کے لیے لفظ کے ہمہ جہت مفاہیم ، درست لفظ کا انتخاب، موضوع ، ماحول اور منظرنامے سے اُس کی مطابقت تو لازم ہے ہی قاری کی بصیرت اور فکری اُپج کا اِدراک ہونا بھی ضروری ہے اور اِس کے باوصف فکشن کی روایت اور ہم عصر بیانیے سے انسلاک کی صفت بھی۔ محمد جاوید انور نے ’’برگد‘‘ میں اور اب “سرکتے راستے “ میں ثابت کیا ہے کہ اُنہیں اِن تمام منازل کو سَر کرنے میں قطعی کوئی دِقّت نہیں ہوتی اور اُن کے یہاں لفظ ، علامتوں اور استعاروں میں ڈھل کر بھی بے چہرہ اور مبہم نہیں ہوتے اور ایک مانوس شباہت اور تفہیم کا دَر ہمیشہ کھُلا رہتا ہے۔’’سرکتے راستے‘‘ اُسلوب اور موضوعات کے حوالے سے ’’برگد‘‘ کا تسلسل ہے گرچہ تجربے کی ندرت کے حوالے سے اسے اگلا قدم کہنا مناسب ہوگا۔ ہمارے لکھنے والے کہانی اور افسانے کے بیچ تفاوت کے حوالے سے اُلجھتے رہتے ہیں مگر محمد جاوید انور کے اسلوب نے ان تمام مباحث کو بودا بنا دیا ہے کہ وہ کہانی اور افسانے کی تقلیبِ نو کے پیش رَو ہیں۔ اُن کے یہاں کچھ بھی نامانوس نہیں۔ تاہم وہ اسے نامانوس بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اُن کے کمالِ فن سے کُچھ ایسا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس بھی نہیں اور ایک ماہرانہ سٹروک لگتے ہی حقیقت تجرید اور تجرید حقیقت میں ڈھل سکتی ہے۔

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں