80

محمد جاوید انور کی کتاب سرکتےراستے پر تبصرہ از رقیہ اکبر چوہدری

کتاب : سرکتے راستے
مصنف : محمد جاوید انور
تبصرہ : رقیہ اکبر چوہدری

“سرکتے راستے” محمد جاوید انور کا ایسا افسانوی مجموعہ ہے جسے میں نے دو بار پڑھا۔
بڑے ہی سہل انداز میں لکھے گئے ایسے افسانے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کیونکہ ان میں کہیں بھی بناوٹ نہیں، رنگریزی نہیں۔
جو کچھ لکھا دل سے لکھا صاف اور کھرا لکھا، نہ لفظوں کی ملمع کاری سے بلاوجہ کے سلمے ستارے، نگینے ٹانکنے کی کوئی شعوری کوشش کی نہ ہی مشکل و پیچیدہ اصطلاحات کو بےجا استعمال کر کے قاری پہ اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کی کوئی سعی کی گئی۔
نہایت روانی و سلاست سے بالکل ہی سادہ اسلوب میں عام لوگوں کے عام سے مسائل کو افسانے کے رنگ میں اس طرح بیان کیا کہ ہر افسانہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔
ہمارے ارد گرد بکھری سچائیوں ،حقیقتوں پہ مبنی سادگی سے لکھے گئے یہ افسانے جس میں ہمیں کہیں اپنا آپ تو کہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں ،ماحول، علاقوں کا رنگ نظر آتا ہے رنگ بھی ایسا جو امتداد زمانہ سے پھیکا پڑتا جا رہا ہو۔

“میرا سلام کہنا اپنی ماں سے
ماں ہونا جس کا اعزاز ہے جو جانے کب چھن جائے کہ علم بڑی تیزی سے ہر سچ کو جھوٹ کئے دے رہا ہے
اسے کہنا غنیمت ہے یہ وقت کہ ہم ابھی تک مائیں ہیں، چاہے یہ منصب یہ کردار ہماری ہڈیوں سے گودا بھی نچوڑ لے”

میں نے پچھلے سال جب یہ افسانے پڑھے سوچ لیا تھا کہ ایک بار پھر پڑھنا ہے کیونکہ انہیں پڑھتے ہوئے مجھے ناسٹلجیا ہونے لگا۔یہ میرے دور کی سچی اور کھری کہانیاں تھیں جنہیں مہارت اور چابک دستی سے افسانوں کے قالب میں ڈھالا گیا تھے۔
یوں لگا کوئی مصنف کوئی کہانی کار، کہانی نہیں لکھ رہا بلکہ ریلوے اسٹیشن پہ بیٹھا بوڑھا سٹیشن ماسٹر سٹیشن پہ آنے والے لوگوں کو اکٹھا کر کے خود کسی اونچے سے تھڑے پہ کھڑا ہو کر حقیقتیں بیان کر رہا ہو۔
ریل کے انتظار میں بیٹھے ،کہیں اونگھتے، کہیں سستاتے، کہیں بےچینی سے ٹہلتے لوگ ایک دم رک کر دلچسپی سے اس بوڑھے قصہ گو کی یہ حقیقت پہ مبنی کہانیاں دلچسپی اور دلجمعی سے سننے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

مجھے لگا میں بھی اسی ریلوے سٹیشن پہ اس اکٹھ میں بیٹھی ایک روح ہوں جو سٹیشن ماسٹر کی پرسوز آواز میں یہ کہانیاں سن رہا ہے۔
کہیں میں خود انہی کہانیوں میں سے کسی کہانی کا یا شاید سبھی کہانیوں کا ہی ایک کردار ہوں کیونکہ ہر کہانی میں ہر افسانے میں میں نے خود کو کبھی کسی چوبی خستہ بینچ پہ تو کہیں سیڑھیوں کی ریلنگ سے ٹیک لگائے، کہیں سرکنڈوں کی باڑ سے جھانکتے ہوئے اور کہیں ماہر کہانی کار کی کہانی کی بنت سکھاتی گفتگو کے بیچ مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے پایا۔

“زندگی اے زندگی ” کی بیوہ ہیروئین شرجیل سے اپنی لڑائیوں اور لڑائیوں کے بعد صلح کی کہانی جیسے براہ راست مجھے سنا رہی تھی، میں ہی اس کی وہ رازداں سہیلی ہوں جس کے سامنے پہ وہ اپنی زندگی کے سارے راز پرت در پرت کھولتی جا رہی تھی۔
ان کے بیچ نوک جھونک کب اور کیسے لڑائی میں بدل جاتی تھی اور کب یہ لڑائی پھر سے دوستی، محبت میں بدل جاتی، جیسے یہ سب میرے سامنے ہوتا رہا ہو۔

عجیب لڑکی کے مکالمے پڑھے تو لگا افسانہ نہیں پڑھ رہی بلکہ یہ میں خود ہی عجیب لڑکی ہوں جو “سٹیشن ماسٹر” کے افسانہ لکھنے کے فارمولوں کو ماننے سے انکاری ہے

“لاحول ولا قوہ! آپ کے فارمولے پہ چل کر بھٹے کے سانچے سے ایک سی اینٹیں تو تھاپ تھاپ کر ڈھیر لگا سکتی ہوں لیکن آزاد ،طرح دار اور میری مکمل تشفی اور قاری تک تسکین آور ترسیل پر قادر شاہکار تخلیق نہیں کر سکتی”

تقلید کے اللہ داد کی کہانی ہو یا فیک آئی ڈی کی آڑ میں عورت کے بھیس میں چھپے مرد کی داستان یا پھر مہربانی کے مظلوم نذیر نائی کی روتی بلکتی کتھا ہو ہر کہانی ہر افسانہ درحقیقت ہمارے ارد گرد موجود ہے

اور کئی افسانے پڑھ کر یوں محسوس ہوا جیسے کہانیاں سناتے سناتے سٹیشن ماسٹر کی سانس پھول گئی ہے وہ افسانے کو بیچ راستے چھوڑ کر آرام کرنے اپنے حجرے میں جا بیٹھا ہے اور سامعین سے کہہ گیا ہے کہ

لو بھئی میں تو چلا ۔۔۔
اب تم سب اپنی اپنی مرضی کا انجام سوچ کر خود ہی کہانی کا اختتامیہ کر لو۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کریں