972

محمد جاوید انور کے افسانوں‌کی کتاب “برگد” پر غلام حسین ساجد کا تبصرہ

کچھ اطلاع تو ہمیں پہلے سے تھی،کچھ سیدّ گلزار حسنین کے افسانوی مجموعوں”چُھپے ہاتھ”اور پتّھر چہرے” اور جاوید انور کے”برگد”نے تصدیق کی کہ نئے افسانے میں کہانی کے قدم اب دوبارہ بڑی مضبوطی سے جم چکے ہیں اور جدید افسانہ دیہی اود شہری زندگی کی خوبیوں اور قباحتوں کے ساتھ ساتھ تاریخ،فلسفے،نفسیات اور جدید تر فکری رجحانات اور اسالیب کا رس کشید کر کے ایک نیا ہی روپ دھار چکا ہے۔
جاوید انور کو میں نے”برگد”سے جانا۔اُن کے موضوعات کی نُدرت اوروسعت کا رنگ جمنے سے پہلے مجھے اُن کی نپی تُلی نثر نے جکڑا۔موزوں اور مناسب الفاظ کا ایسا چناو کہ معنویت کی تہ داری پر ٹھہر کر غور کرتے بِنا بات نہ بنے اور اختصار ایسا کہ تشریح کا پھُول وجدان کے ساتھ ساتھ احساس میں بھی کِھلے اور کُھل کر اس طرح مہکے کہ معانی اور امکاناتِ معانی کی روشّیں سجتی چلی جائیں اور سج دھج ایسی کہ مصنّف کے ہر قدم پر موجود ہو کر بھی یہ سب اہتمام خود رو اور ذات مست لگے اور قاری کے وجود میں خنکی کی لطیف لہر کی طرح سماتا چلا جائے۔
“برگد” میں چودہ افسانے اور تیرہ افسانچے ہیں( مگر انہیں افسانچہ یا مائکروف اس بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ وہ مختصر ہیں تو یہ دلیل اس لیے ناکافی ہے کہ افسانے کی تاثیر اور تہ داری کا تعلّق طوالت سے مشروط نہیں اور کافکا کی کئی کہانیاں اس پر دال ہیں )یہ افسانے اپنے اندر رموزِ ہستی اور مفاہیم کی ایک دنیا لیے ہیں۔کہیں طبقاتی کشمکش کو نشانہ بنایا گیا ہے تو کہیں باطنی احساس اور اس سے جڑے افتخار اور ندامتوں کو۔کہیں نفسیاتی ردّ ِعمل اور فطری گُریز اور تجاوز کو موضوع بنایا گیا ہے تو کہیں ایک پیچیدہ حرکی عمل کا رنگ غالب نظر آتا ہے،جیسے افسانہ نگار نے کردار خلق ہی نہ کیے ہوں ان کے وجود میں سما کر ان کے اعمال کی سمت بھی متعیّن کر دی ہو۔اسی لیے تو سبھی کچھ اس قدر مقّرر اور برمحل ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ کرداروں کی سمت نمائی کی یہ کوشش محض ایک مغالطہ ہے۔دیہات میں اور آج کی مدنی زندگی میں یہ سب کچھ بہت آسانی سے موجود ہے اور موجود تھا-استیصال،ہوس،کشش،نفرت،محبّت اور انتقام اور ان سب سے جُڑے نفسیاتی عوارض اور اعمال نئے ہیں نہ نئے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے ضرور بدل گئے ہیں۔برگد”دشتِ وحشت،بھڑ،رائیگانی،آخری رات،گھر اورپیر شناس” میں ہمیں یہی مانوس دنیا بدلتی اور پھر افسانہ نگار کے طلسم سے اپنے اصل کی جانب لوٹتی دکھائی دیتی ہے تو ہم اُس کا اصل چہرہ دیکھ کر حق دق رہ جاتے ہیں کہ یہ ہمارے اذہان اور وجود کا ہمیشہ سے حصّہ تھی اور ہے۔
“برگد”کی بنیاد ناسٹلجیا اور موجود حقیقت کے آمیخت پر ہے۔اس لیے اس میں ایک تابندہ رہنے والی دمک ہے۔آئیے اور اس دمک سے اپنی آنکھیں خیرہ کیجیے اور دیکھیے کہ آج کی کہانی کا دھارا کس اور بہہ رہا ہے اور کیسے؟


اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں