1,422

محمد جاوید انور کے افسانے اپنے عہد کے سچ کی عکاسی کرتے ہیں اور عام آدمی کے مسائل کے نقیب ہیں، افتخار عارف

محمد جاوید انور کے افسانوی مجموعہ’’سرکتے راستے‘‘ کی تقریب رونمائی
رپورٹ :طارق محمود انجینئر 

اخبار: روزنامہ اذکار

محمد جاوید انور کی نئی تخلیق”سرکتے راستے”
محمد جاوید انور کے افسانے اپنے عہد کے سچ کی عکاسی کرتے ہیں اور عام آدمی کے مسائل کے نقیب ہیں، افتخار عارف

محمد جاوید انور ایک روایت شکن افسانہ نگار
https://www.facebook.com/1597631827209260/posts/1966313163674456/

گزشتہ دنوں ادبی و ثقافتی تنظیم ’’دی سرکل اسلام آباد ‘‘کے زیر اہتمام معروف شاعر و افسانہ نگار محمد جاوید انور کے افسانوی مجموعہ’’سرکتے راستے ‘‘کی تقریب رونمائی اکادمی ادبیات پاکستان کے کانفرس ہال میں منعقد ہوئی۔ جسکی صدارت ملک کے ممتاز شاعر و دانشور افتخار عارف نے کی۔تقریب کے مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر انور زاہدی اور اقبال فہیم جوزی تھے۔ جبکہ محمد حمید شاھد مہمان اعزاز تھے۔میزبانی کے فرائض معروف شاعر اور براڈ کاسٹر حیدر فاروق نے انجام دئیے۔ محمد جاوید انور کے فن و شخصیت پر اظہار خیال کرنے والوں میں ان مہمانوں کے علاوہ فرخ ندیم، ڈاکٹر ابرار عمر، سید ظہیر گیلانی،خلیق الرحمان، انیق الر حمن، صباح کاظمی اور حمید قیصر شامل تھے۔تقریب کے آغاز میں مشاعروں اور ادبی تقاریب کی ایک خوبصورت روایت کو زندہ کرتے ہوئے سٹیج پر جلوہ افروز مہمانان گرامی کو میزبانوں ناصر عقیل، اعجاز محمود، نائلہ حق، رفعت عزیز اور حمید قیصرنے گلدستے پیش کئے ۔تقریب کا باضابطہ آغاز حمید قیصر کے مختصرمضمون سے ہوا، جس میں انہوں نے محمد جاوید انور کے فن و شخصیت کا احاطہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ لکھنے والا فطری طور پرتبدیلی کا خواہاں اور اسکا ہر ہر لفظ تغیر و تبدل کا نقیب ہوتا ہے ۔ محمدجاوید انور کا تعلق بھی لکھنے والوں کے ایسے ہی قبیلے سے ہے، جو کسی سماجی و معاشرتی جبر کو خاطر میں لائے بغیر قلب و روح کی گواہی میں حق کااعلان کرتے چلے جاتے ہیں۔محمد جاوید انور عصر حاضر میں سانس لیتے ہوئے اپنے عہدکا سچ لکھنے پر مامورہیں ۔ عام آدمی کی بات کرتے ہوئے سماجی جبر کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ کہیں کہیں روایت شکنی بھی کرتے نظر آتے ہیں جو آسان کام نہیں ۔ جینوئن ادیب کو اپنے عہد کا سچ لکھتے ہوئے کئی سطح پر سماجی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ایک طرف آپکواپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہوں اور دوسری جانب آپ عام آدمی کے ساتھ بھی کھڑے ہوں۔ ادب میں یہی مثبت طرز احساس محمد جاوید انور کو اپنے عہد کے معروف افسانہ نگاروں کی صف میں لا کھڑاکرتا ہے۔صباح کاظمی نے کہا کہ کتاب’’ سرکتے راستے‘‘ کا مجموعی تاثر جب ایک ہیولے کا روپ دھارتا ہے تو اس میں مصنف کا اپنا چہرہ اور اپنی ذات نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کے اس ہجوم کی نیرنگی کے بنظر غائر مطالعہ نے انہیں اپنی ذات سے قریب تر کردیا ہے۔ کتاب میں نو عدد مائیکروفکشن بھی شامل کئے گئے ہیں۔ جن میں نہایت مختصرالفاظ میں بیان کی گئی حکمت زندگی کی بھٹی سے کشید کی گئی ہے۔ محمدجاوید انورکے افسانوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ابرار عمر نے کہاکہ میرا بحیثیت شاعر نثر کی نسبت شاعری کا مطالعہ زیادہ رہا ہے اور میں دور جدید کی اردو نثر اور افسانہ سے کافی حد تک مایوس بھی ہوچکا تھا مگر پچھلے دنوں محمد جاوید انور کے افسانوی مجموعہ ’’برگد ‘‘کا مطالعہ کیا تو یہ مایوسی رفع ہوئی کہ ابھی بھی اردو میں اچھے ادب کی تخلیق جاری ہے۔پچھلے ہفتے ہی انکا افسانوی مجموعہ’’ سرکتے راستے‘‘ بھی پڑھنے کو ملا۔ جسے میں اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود پڑھتاہی چلا گیا۔انکے افسانوں میں ایسی لپک ہے کہ آپ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ انکے افسانوں میں کہانی، جزئیات نگاری اور بڑے ملائم اسلوب کیساتھ قاری کو ساتھ لیکر چلتی ہے۔انکاافسانوی اندازبھی بڑامنطقی ہے۔افسانہ ’’گول میز‘‘دو پاٹوں کے بیچ پستی ہوئی زندگی کا عکاس ہے۔ انکی کہانیاں نفسیاتی حوالوں سے بھرپور اور سماج سے جڑی ہوئی ہیں۔سید ظہیر گیلانی نے کہا کہ محمد جاوید انور کی کتاب پر چھپے تعارف میں لکھا تھا کہ انہوں نے انگریزی ادبیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی جبکہ فارسی جناب پروفیسر سید شہرت بخاری اور امان اللہ خان آسی ضیائی لامپوری سے پڑھی ہے۔ حضر ت آسی ضیائی کا نام دیکھ کر ہمارادل بلیوں اُچھل پڑا کہ بندہ ناچیز بھی اُن ہی کاشاگرد رہا ہے۔ ایک عظیم زبان دان اور مثالی اُستاد کی حیثیت سے سب ہی لوگ اُن کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ میرے جیسے کم ذہن شاگرد بھی اورجاوید انور جیسے ذہین فتین شاگرد بھی۔ البتہ عرصہ دراز سے میری نظر سے ایسے بڑے قلمکار شاذ ہی گزرے ہیں جو اپنے شعبہ جات میں اعلیٰ ترین مسندوں تک پہنچنے کے بعد بھی اپنا تعارف اپنے اُستادوں کے حوالے سے کراتے ہوں۔ میں جاوید انور اور اُن کے اُساتذہ کو سلام پیش کر تا ہوں۔حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے سیکرٹری خلیق الرحمن کا کہنا تھا کہ محمد جاوید انور ایک محبت کرنے والی شخصیت ہیں اور ان کی شخصیت کیطرح انکی کہانیاں بھی دل میں اتر جاتی ہیں۔افسانہ ’’نیرنگی ‘‘کو آپ موجودہ عہد میں غلام عباس کے افسانہ’’ آنندی ‘‘کا تسلسل کہہ سکتے ہیں ۔ یہ اس المیہ کا بیان ہے کہ کس طرح ہمارے دیہات بڑی سرعت کیساتھ شہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ انکے افسانوں کے موضوعات میں تنوع اور انکا کینوس وسیع ہے ۔مگر ایک کہانی میں نیولے کا ایک انسانی زبان میں بات کرنا حیران کن لگا۔ پی ٹی وی پروڈیوسر انیق الرحمن کا کہنا تھا کہ میں جب بھی کسی افسانے یا کہانی کا مطالعہ کرتا ہوں، تو میں اس میں اپنی ذات اور اپنی خواہش کا عکس تلاش کرتا ہوں۔محمد جاوید انورکے افسانوی کرداروں میں نذیرنائی اور نمبر داروں کے کردار میرے اپنے ہی گاوں کے کردار ہیں ۔اعظم کا کردار بھی جیسے میں خود ہوں ۔ نیولے اور سانپ کی لڑائی میں میرے اندر خواہش ابھری کہ میں نیولے سے یہ راز جان سکوں کہ وہ اتنے زہریلے سانپ کو کس طرح قابو کرلیتا ہے۔ انکے افسانوں کے تمام مناظر کے پس منظر میں میرا ہی گاوں جھلکتا محسوس ہوتاہے۔فرخ ندیم نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہر تخلیق کار کی تخلیق کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے غیر معمولی کردار موجود ہوتے ہیں جن کو تخلیق کار بقول کولرج اپنی سیکنڈری امیجینیشن کے ذریعے تخلیق کا حصہ بناتا ہے۔محمدجاوید انور کے افسانے اپنے غیر معمولی کرداروں اور اپنی رہتل کے ساتھ جڑت کے حوالے سے منفرد ہیں۔ انکے افسانوں میں دیہی زندگی ،ریل اور قدیم معاشرت کا ایک ایسا رومان ہے، جو ہماری ثقافت سے وابستہ ہے مگر سرمایہ دارانہ نظام کی آمد نے نہ صرف ہماری دھرتی پر قبضہ کیا ہے ۔بلکہ ہماری سماجی نفسیات کو بھی اپنا غلام بنا لیا ہے۔اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ایک تنکے کی مزاحمت بھلا کیا معنی رکھتی ہے۔ درخت اس وقت تک نہیں کٹتا جب تک کہ وہ تقدیس کا درجہ نہ اختیار کرلے ۔لیکن اگر وہ کٹتا ہے تو اس وجہ سے کیونکہ وہ اس کارپوریٹ کلچر کا حصہ نہیں رہ پاتا۔ افسانہ’’ برگد‘‘کا بھی یہی موضوع ہے جسکااسلوب انتہائی سادہ ہے مگر یہ کہانی تہہ در تہہ گہرے معانی رکھتی ہے۔تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر انور زاہدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ماہر نفسیات یونگ کے بقول ہم فنکار ہوں یا نہ ہوں شعوری زندگی کی معروضی صورتحال میں رہتے ہوئے بھی اجتماعی لاشعور کے حوالے سے اپنی’’ پرائموڈیل آرکیٹائپ‘‘ میں رہتے ہیں اور اجتماعی لاشعور کی یہی کیفیت ہمارے فنکار ہونے کی علامت ہے۔ ہمارا فن چاہے وہ شاعری ہو کہ افسانہ نگاری مصوری ہو یا کوئی اور فن ،یہی وہ پیرایہ اظہارہے جسکے ذریعے ہماری مخفی خواہشیں خواب یا کسی بھی ادبی تخلیق کی صورت تسکین پاتی ہیں۔ اس لحاظ سے افسانہ نگار محمد جاوید انور خوش قسمت ہیں کہ انہیں یہ اسم اعظم ہاتھ لگ گیا ہے۔ بنیادی طور پر آپ ایک شاعر ہیں اور انکا یہی شاعرانہ مزاج انکی نثر میں بھی رومانوی مزاج لئے ہوئے ہے۔ اور انکے مختلف افسانوں میں بھی جگہ جگہ جلوہ افروز ہے۔ محمدجاوید انور اپنے نرم مزاج کے بدولت بھی اپنی دھرتی اپنے سماج اور اپنے لوگوں سے باوجود انکی تما م خوبیوں اور خامیوں کے جڑے نظر آتے ہیں۔تقریب کے دوسرے مہمان خصوصی اقبال فہیم جوزی نے کہا کہ میں اکثر محمد جاوید انور کے افسانے اور نظمیں ادبی رسائل میں پڑھتا رہتا ہوں۔مجھے ان کے افسانے اچھے لگتے ہیں۔میں اگرچہ انکا افسانوی مجموعہ’’سرکتے راستے‘‘ ابھی نہیں پڑھ سکا ۔تاہم ایک شاعر کی حیثیت سے میں انکی ایک نظم کے پر سیپشن اور میتھڈ پر بات کروں گا۔ کیونکہ ادب کی کوئی بھی صنف ہو اسکاماخذ تجرید ہی ہوا کرتی ہے۔ ہاں اسکے اظہار کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔اب یہ تخلیق کار پر منحصر ہے کہ وہ اسے ادب کی کس صنف میں تخلیق کرتاہے۔ مثال کے طور پر انکی ایک نظم ہے ’’جبر‘‘جسکے کے متن میں انہوں نے جابر اور مظلوم دونوں کے نقطہ نظر کے حوالے سے ’’جبر‘‘ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ڈوئیل پرسیپشن ہے۔ میں محمد جاوید انور کی دی ہوئی کتابوں کو پڑھوں گا اورجلد انہیں خط کے ذریعے اپنی رائے سے بھی آگاہ کروں گا۔ مہمان اعزازمحمد حمید شاہد کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں انٹر نیٹ پر تلاش کے دوران روسی سائنسدان کا ایک مضمون نظر سے گزرا ۔جس میں انسانی نفسیات پر قابو پانے کے مختلف ذرائع پر تحقیق کی گئی تھی ۔ اس کے خلاصہ کے طور پریہ بات منظر عام پر آئی کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکے بارے میں قائم کئے جانیوالے تمام مفروضے اور اندازے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک غیر متوقع مخلوق ہے۔جسکی نفسیات کے بارے کسی بھی قسم کی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ چنانچہ ایک ایسی مخلوق کی نفسیات کو سمجھ کر کہانیاں لکھنا ایک غیر معمولی عمل ہے۔ جس پر محمدجاوید انور پورے اترتے ہیں۔ انکی کہانیوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ محض شوق کی بنا پر ہی اس میدان میں نہیں آگئے بلکہ انکو اپنے دیہات کے مسائل تنگ کر رہے ہیں۔ آج کے اس دور میں جب کہ اچھا افسانہ لکھنے والے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔ میں محمد جاوید انور کو افسانہ کے حوالے سے یکسو ہو کر کام کرنے مشورہ دوں گا۔ صاحب کتاب محمد جاوید انور کا اس موقع پر کہناتھا کہ میں ان تقریب کے مہمانان خصوصی اور دیگر احباب کا انتہائی کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے اپنی بھرپور شرکت سے اس محفل کو رونق بخشی۔ یہاں کی گئی گفتگو سے معلوم ہوا کہ اب مجھے کیسے لکھنا ہے ۔آپ دوستوں کی باتوں سے مجھے ایک راستہ نظر آیا ہے اور بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔نظم تو مجھ پر وارد ہو تی ہے۔ جبکہ افسانہ میں فراغت میں محنت سے لکھتا ہوں۔ میں نظم کو کب کا چھوڑ چکا ہوتا مگر معروف شاعر ڈاکڑ ابرار احمد جو میرے بیچ میٹ بھی ہیں۔ انکی حوصلہ افزائی سے شاعری سے جڑا رہا۔ میرے والد صاحب مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر میں نے اپنے لئے آرٹس کا شعبہ منتخب کیا۔ بی اے میں مجھے شہرت بخاری جیسے اساتذہ سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔میں اپنے فارسی کے استاد امان اللہ خاں آسی ضیائی رام پوری کی شخصیت و قابلیت سے بہت متاثر تھا۔یہی وجہ ہے کہ میں ڈاکٹر بننے کے بجائے شاعرا و رادیب بن گیا۔انہوں نے اس موقع پر اپنا افسانہ’’ عجیب لڑکی‘‘ پیش کیا۔ جسکی حاضرین نے بہت داد دی۔صاحب صدر جناب افتخار عارف کا کہنا تھا کہ میں محمد جاوید انور سے حال ہی میں ملا ہوں اور عجیب و غریب صورتحال یہ ہوئی کہ میں جس شاعرجاوید انور کو جا نتا تھاانکا تو پچھلے دنوں انتقال ہو چکا تھا۔مگر جب حمید قیصر نے محمد جاوید انور سے تعارف کروایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو کوئی دوسرے جاوید انور ہیں۔یہاں پر کہانی کے’’ پرسیپشن ‘‘اور ’’میتھڈ ‘‘کے حوالے بہت سی باتیں ہوئیں مگر میں تو کہانی کومحض لطف لینے کیلئے پڑھتا ہوں۔دنیا میں بہت سے اچھے کام بشمول شادی کے آپ رومانس کے بغیر نہیں کر سکتے۔سو طرح کے تنقیدی مضامین پر آپکی سنائی ہوئی یہ کہانی بھاری ہے۔ایک اور نصیحت میں آپکو کرنا چاہوں گاکہ بیوروکریسی میں افسر شاہی سے بچ کر رہیئے گا۔ یہ کہانی ،شاعری اور افسانے کو زندہ رکھنے کیلئے بہت ضروری ہے۔تخلیق کیلئے تنہائی لازم ہے۔اگر آپ اپنے ساتھ کچھ وقت علیحدگی میں نہیں گزار سکتے تو پھر تخلیقی کام کی بجائے کوئی اور کام ڈھونڈ لیجئے۔ اگر شعر کہنا کہانی لکھنا ہے تو پھر آپکو باقی دنیا سے کٹناہی پڑے گا۔کیونکہ لکھنا پڑھنا تو پیغمبرانہ اور الہامی کام ہے۔ یہاں یہ کہا گیا کہ شاعری چھوڑیے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ شاعر ہوں اور شعر نہ کہیں۔ اگر آپ شاعر ہیں تو آپکو افسانے کے ساتھ ساتھ شعر بھی کہنا چاہیئے ۔محمد جاویدانور کے افسانے اپنے عہد کے سچ کی عکاسی کرتے ہیں اور عام آدمی کے مسائل کے نقیب ہیں۔ صنف افسانہ کے تمام لوازمات کے ساتھ بڑی کہانی لکھنی چاہیئے۔کہانی پڑھنے والے آج بھی اسی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ محمدجاوید انور ہمارے عہد کے نمائندہ شاعرو افسانہ نگار ہیں۔ اس دور پرآشوب میں آپکے ہم عصر اہل قلم نے آپکے فن و شخصیت کے بارے میں اتنی اچھی اور مثبت گفتگو کی ہے ورنہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ادیب دوسرے ادیبوں کی تعریف و توصیف میں بخل سے کام لیتے ہیں۔اس خوبصورت ادبی تقریب کی نظامت کے فرائض معروف شاعرو براڈکاسٹر حیدر فاروق نے سرانجام دیئے۔ انہوں نے تقریب کے دوران ہر مقرر کو دعوت دینے سے قبل محمد جاوید انور کے اشعار سنا کے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔تقریب کا انتظام و انصرام افسانہ نگار اور ’’دی سرکل‘‘ کے صدر حمید قیصر اور انکی ٹیم نے کیا تھا ،جنکی کاوشوں کو تقریب میں بار بار سراہا گیا۔یوں عرصہ بعد فکشن کے حوالے سے ایک معیاری تقریب کی یاد اپنے اختتام کے ساتھ شرکاء کے دلوں میں مدتوں تازہ رہے گی۔

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں