کئی منظر ادھورے ہیں
محمد جاوید انور کی شعری فتوحات کا میدانِ حاضرہ
تحریر: اعتبار ساجد
رسالہ:ندائے ملت 19تا25جولائی 2018 سلسلہ ہم لوگ
اپنی ادبی زندگی کی چار دہائیوںسے زائد کے سفر میںکئی بڑے ادیبوں، کئی بڑے لوگوںسے ملنے کا اتفاق ہوا. کہیںبہت خوشی محسوس ہوئی . کہیںحد سے زیادہ مایوسی ہوئی مگر دونوںصورتوںمیں، میںنے اوسان بحال رکھے. رائے تبدیل کرنے میںعجلت نہیںکی. صاحب نہج البلاغہ کا یہ قول سامنے رکھا کہ “کسی کے بارے میںفوری رائے قائم کرنے میںعجلت سے گریز کرو”. اللہ کا شکر ہے کہ یہ قول صادق زندگی میںبہت کام آیا. کہیںبہت اچھی رائے بہت بُری طرح بگڑنے سے بچ گئی، کہیںبہت مایوس کن رائے خوشگوار حیرت میںتبدیل ہوئی. یہ اعصاب کو معتدل رکھنے کی پریکٹس تھی جو میرے بہت کام آئی، اور میںنے لکھنے کے سلسلے میںکبھی باہمی تعلق کو سامنے نہیںرکھا ہمیشہ مثبت انداز میں مگر غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے لکھا اور جو کچھ لکھا چونکہ سچ لکھا اس لئے کبھی ندامت یا خجالت سے دوچار نہیںہونا پڑا. معروف دانشور، ادیب و شاعر جاوید انور کی کتاب پر کچھ لکھنا میرے لئے خوشگوار فریضہ تھا. “کئی منظر ادھورے ہیں” کئی دن سے میرے سرہانے رکھی تھی. سونے سے پہلے ایک مرتبہ اسے ضرور کہیںنہ کہیںسے پڑھتا تھا. کل رات تہیہ کیا کہ بھائی اور ہمشیرہ کی شدیدعلالت کے باعث چونکہ رات بھر جاگنا ہے اس لئے کوئی اچھی کتاب پڑھ کر یہ رات گزار دی جائے تاکہ جب کہیںمیری ضرور پڑے، زیر مطالعہ صفحہ موڑ کر حسب ضرور خدمت سرانجام دوںاور جب فراغت پاؤںتو کتاب کی طرف آؤں. رات بھر یہی کیا اب صبح اٹھ کر اپنے مجتمع خیالات کو تاثرات کی شکل میں بیان کر رہا ہوں ” کئی منظر ادھورے ہیں”کے خالق جناب جاوید انور ایک جینوئن اور حقیقی تخلیق کار ہیں. نظم و نثر کی تمام اصناف پر عبور رکھتے ہیں. مطالعہ وسیع اور گہرا ہے. طبیعت میںسادگی، محبت، دیانت اور ریاضت کے ہیرے جگمگاتے ہیںجو ان کی نگارشات کے صفحات پر ابھر کر جگمگاتے ہیں. طبعی رجحان نثر کی جانب ہےلیکن شاعری میں بھی کمالات فن کے تمام جواہر موجود ہیں. ایک ایک مصرعہ، ایک ایک شعر، ایک ایک غزل اور ایک ایک نظم خواہ وہ نثری ہو یاپابند ہو، بے ساختہ قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے. مثلآٓ ایک غزل کے چند اشعار دیکھئے.
کوئی بھی نام رکھو ہم تو آوارہ پرندے ہیں
کہیںدن بھر بھٹک لیں شام اپنے گھر ہی جاتے ہیں
جو دنیا بھر سے نالاں ہو، مجھی سے کچھ ہوا ہوگا
یہ طے ہے ایسے سب الزام میرے سر ہی آتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہےیارا
جو ملتا ہے وہ کھو جاتا ہےیارا
خدا کا شکر کر، کاندھے پہ تیرے
کوئی دکھ اپنا رو جاتا ہے یارا
اتنا آساںہو تو سبھی کر لیں
آئیں، اور تجھ سے دوستی کر لیں
چاند نکلا ہے کیسا آج کی شب
یہ ستارے نہ خودکشی کر لیں
تیرے جانے کا کوئی غم تو نہیں
خوبرو اس جہاں میںکم تو نہیں
اب ملاقات ایک کام ہوئی
یہ محبت بھی اب تمام ہوئی
یہ اشعار محض جھلکیاں ہیں. پوری کتاب ایسے ایسے اشعار اور غزلوںسے مزین ہے کہ دل یہ کہنے پر مجبور ہوجائے
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوںدن پچاس ہزار
ہم ایک ایسی دنیائے ادب کے باسی ہیںجہاںہر شخص اپنی ذات کے جزیرے میںگم ہے اور جب گمشدہ آدمی تک ہم کسی طرحجا پہنچتے ہیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ یہی وہ فرد جس کی ہمیں تلاش تھی. جاوید انور صاحب ایسے ہی دلکش اور حسین دانشور ہیں جو اپنی ذات اور فن میں کوئی تضاد نہیںرکھتے. ایسے ہی افراد اس گھٹن آلود معاشرے کی ضرورت ہیں. اللہ انہیںصحت، زندگی اور علمی ادبی سماجی ترقیوںسے نوازتا رہے. یہی دعابھی ہے ، تمنا بھی!