کتاب۔۔اِکتارہ۔۔۔۔۔۔فردیات
شاعر۔۔محمد جاوید انور
پبلشر۔۔۔ماوراء پبلشرز ۔لاہور
اشاعت۔2021 ۔قیمت 500 روپے۔
رابطہ۔03004020955.
محمد جاوید انور معروف شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔انکی خوبصورت لائبریری ایڈیشن کتابوں کے مستقل پبلشر خالد شریف بھی شہرِ ادب و اشاعت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور تمام عمر علم و ادب کی آبیاری میں بسر کی ہے
محمد جاوید انور کی شاعری کی تین کتابیں اگر تم لوٹنا چاہو۔۔کئی منظر ادھورے ہیں اور سنو اے جاگنے والو اشاعت کے بعد شائقینِ ادب سے تحسین پا چکی ہیں
اگر تم لوٹنا چاہو۔۔۔شاعر کی ابتدائی رومانوی زندگی اور اس کے معصومانہ احساسات اور جذبات کی شاعری ہے۔جس کے بارے میں شاعر کا کہنا ہے
یوں تو وفا کی دیویوں کی اک قطار تھی
لیکن نبھی تو نبھ گئی اک بے وفا کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
میں خود غرض ہی سہی پھر بھی یہ نہ چاہوں گا
کہ میرے آج کے بدلے میں اس کا کل جائے
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
پہلی کتاب کو اسلم کولسری اور اختر شمار نے اپنے تعارف سے سجایا ہے اور شاعر کی شاعری میں محبت کے جذبات کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں کے بارے جاوید انور کے شائستہ رویے کی توصیف کی ہے۔یہ کتاب 2016 میں شائع ہوئی
جاوید انور کا دوسرا مجموعہء کلام سنو اے جاگنے والو2019 میں شائع ہوا۔اس مجموعے پر ڈاکٹر سعادت سعید۔ اعتبار ساجد اور حمیدہ شاہین کی آراء موجود ہیں
ڈاکٹر سعادت سعید نے شاعر کی بے تکلف شعری ساختوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔۔شاعر نے لکھا ہے
تیری روشن جبیں سے زلفوں تک
زندگانی کی صبح شام ہوئی
۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اس مجموعے میں کئی نظمیں آپ کا راستہ روکتی اور کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں
مثلاً ایک نظم میں شاعر کہتا ہے
ماضی کا کنواں بہت گہرا ہوتا ہے
اور اس کنوئیں کی کائی لگی دیواروں سے
تیری یاد کی جڑی بوٹیاں روئیدگی پکڑتی ہیں
اگر یہ اِس آبِ حیات کو چُھو لیں
تو ماضی اور حال
ایک ہو جائیں
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
شاعری کے اگر مگر ہمیشہ بہت ظالم ہوا کرتے ہیں۔ناقابلِ یقین باتوں کے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔۔۔اسی مجموعے سے ایک اور فلسفیانہ۔ آسان۔رواں اور خوبصورت نظم دیکھئیے
دل کا کیا بھروسہ ہے
کب کہاں اٹک جائے
اور کہاں بھٹک جائے
دل کا کیا بھروسہ ہے
کب اداس ہو جائے
کب کہاں پہ کھو جائے
کب کسی کا ہو جائے
یونہی باتوں باتوں میں
کس کی کھوج میں نکلے
اپنی موج میں نکلے
۔۔۔ ۔۔۔۔
نئی کتاب اِکتارہ صرف فردیات پر مشتمل ہے۔۔جیسے مصروفیت میں آپ ٹشو پیپر سے ہاتھ پونچھ کر ضروری کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔شاعر نے بھی شاعری کو اپنی ذات پہ مسلط کرنے کی بجائے ساتھ تو رکھا ہے لیکن غیر ضروری اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی
شعر اک بات ہی تو ہوتی ہے
اور میں بات کرتا رہتا ہوں
۔۔۔۔
آو کچھ کاروبار کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں محبت کا
۔۔۔
سارے پردہ نشین اپنے ہیں
پوچھ لو جا کے تم پسِ پردہ
۔۔۔۔۔۔
ہم سے کچھ شعر کہلوا لیجیے
پھر ہمیں کام پر بھی جانا ہے
۔۔۔ ۔۔۔
اس گریز اور حذر کی کیفیت کے کئی نفسیاتی اسباب ہو سکتے ہیں۔ایک کامیاب سرکاری ملازمت کی سجی سجائی زندگی میں خوشامدیوں کی رفاقت اور قدم قدم پر بلا جواز داد و تحسین کے ڈونگرے۔۔۔یا معتبر زندگی کی خوشہ چینیوں سے پیدا ہونے والا تجاہلِ عارفانہ اور سوچی سمجھی اکتاہٹ۔۔شاعر اس کا کچھ بھی جواز دے کر اپنے قارئین کو گمراہ کر سکتا ہے۔۔۔انہی شعریات میں کچھ ایسے ناگزیر لمحات بھی چُھپے ہوئے ہیں جو مشینی معمولات کا رُخ موڑتے رہتے ہیں اور عائد کردہ مصنوعی مصروفیت میں خالص جذبات اور ان کے گداز کو نئی زندگی بخشتے ہیں
کوئی رومال کاڑھ کر دے دو
ہم ہیں پچھلے کسی زمانے کے
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
وہ گیا وقت نہیں آئے گا
سارے البم سنبھال کے رکھ لے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
مجھ سے ملکر مکان یوں رویا
جیسے میری طرح ہی خالی ہو
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
کتنی بے کیف زندگی ہے مری
روٹھ ہی جاؤ یار کچھ تو کرو
۔۔۔۔ ۔۔۔
اتنے محبوب کیا کروں گا میں
کام کا ایک ہو تو کافی ہے
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
ان اشعار میں رمز و ایماء کئی پہلو موجود ہیں۔یہاں بہت کچھ ایسا جو ہم صرف سوچ کر اگے بڑھ جاتے ہیں
مدت کے بعد پھر میں گیا ڈھونڈتا ہوا
بس اک گلی تھی تنگ سی کچا مکان تھا
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ڈرا مت کہہ کے مرنے جا رہے ہیں
ہم ایسی کتنی موتیں جی چکے ہیں
۔۔۔ ۔۔۔۔
واپسی کے اس سفر میں جب دنیا کا دھوم دھڑکا خاموش ہو جاتا ہے اور ہم پرانے حساب کتاب درست کرنے نکلتے ہیں تو دل کے اکتارے پر ازلی تنہائی کا رت جگا ایک بے ترتیب دھڑکن کا الاپ چھیڑتا ہے۔ گہری چُپ کا عارفانہ کلام جس کی وضاحت ممکن نہیں
تونے سب کچھ کہا وقار کے ساتھ
ہم نے سن بھی لیا سمجھ بھی لیا
۔۔۔ ۔۔۔
جاوید انور کے یہ تنہا شعر میری طرح آپ کو بھی کچھ دیر اپنی رفاقت میں رکھیں گے ۔
کسی دوسری پوسٹ میں محمد جاوید انور کے افسانوں کا تعارف پیش کیا جائے گا۔
ڈاکٹر شاہین مفتی۔ 17 جون 2023