معروف افسانہ نگار اور نقاد سیید تحسین گیلانی ( جنوبی افریقہ) کی میرے افسانہ ” شیر” پر تنقید۔
چاہیے “امراو جان ادا ” ہو ، “راجہ گدھ ” ہو یا سارا شگفتہ کی نظمیں تانیثی ادب میں انہیں مابعد جدید تصورات کا زائیدہ ہی کہوں گا –
Muhammad Javed Anwar صاحب کا یہ افسانہ جسے دلت فکشن کی مثال بھی کہا جا سکتا ہے کہ جھونپڑی والوں کے مسائل اور خصلتوں نے ان کی جہالت اور پست سوچ کی عکاسی بھی کی ہے –
شیر کو اگر نیم علامت کہا بھی جائے تو یہاں شیر ایک مخصوص دائرے تک محدود ہو کر رہ جائے گا ۔۔۔۔جس سے متن کا آفاقی مفہوم پاش پاش ہو جائے گا –
مجھے اصل موضوع عورت کی ازلی بے بسی ہی نظر آیا –
میں اس متن میں کسی بھی تبدیلی کا مشورہ نہیں دوں گا کہ یہ ناقد کا منصب نہیں نہ میں کوئی استاد ہوں ۔۔۔
اس متن کی لسانی صفات کا تجزیہ کیا جائے تو قطعیت ، وضاحت ، مشاہدہ ، تعطل اور منطقیت نے اسے اچھا اسلوب بنایا ہے صرف ایک بات بحیثیت طالب علم مجھے چبھی کہ ابتدائی بیانیہ کچھ زیادہ تیکھا رہا جو خالص مصنف کا انداز ہے اور کہانی سے جڑ نہیں پا رہا ہے لیکن جب میں متن کو مجموعی حیثیت میں دیکھتا ہوں تو پورا متن ہر طرح گندھا ہوا معلوم پڑتا ہے ۔
اسی ابتدائی متن نے اسے ایک عام سطحی کہانی سے الگ بھی کیا ہے اور میں افسانے میں تجربات کو ہمیشہ ویلکم کہتا ہوں اس لیے مجھے اچھا لگا کہ عام گھسے پٹے انداز سے ہٹ کر مصنف نے زبان و بیان کی چاشنی سے افسانے کو نئی شکل دی ہے گو کہ سامنے کی حقیقتوں کو ہی بیان کیا گیا ہے لیکن مشاہدے کی گہرائی نے قاری کو اپنی طرف کھینچا ہے اور جہاں تک طوالت کی بات ہے ۔۔۔۔
دوست سن لیں خالص افسانہ بیس / بائیس صفحات کا بھی ہوتا ہے ۔۔محمد الیاس صاحب نے 50 صفحے کا افسانہ بھی لکھ رکھا ہے تو اس دو صفحے کے افسانے کو طویل کہنا آج کے قارئین کی مطالعے سے اکتاہٹ کو سامنے لاتا ہے –
اس افسانے میں عمدہ گیپس ہیں عورت اس پدری نظام میں ایک حقیر مخلوق ہے وہ جتنی کوشش کر لے مرد عورت کو شیرنی بنا کر رکھے گا اور خود شیر بن کر ہی رہے گا –
عورت کی اس بے بسی پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا –
اچھا افسانہ ہے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری افسانے میں کھو جاتا ہے –
اخلاص و دعا
س – ت -گ
1,055