2,074

آخری گجرا

آخری گجرا ‘

جاوید انور
عالمی افسانہ میلہ 2017
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور پھر ہماری شادی ہو گئی ۔
رضیہ میرے خوابوں کی شہزادی تھی ۔
میں کیا اور میرے خواب کیا۔
لیکن خواب تو سبھی کے ہوتے ہیں , اور خوابوں کی شہزادیاں بھی ۔
میرے پاس تھا کیا اسے دینے کو ؟ پھر بھی وہ خوش تھی کہ جو کچھ چھوڑ کر آرہی تھی وہ بھی کسی کو شہزادی نہیں بنا سکتا , بس خوابوں کی شہزادی ہی بنا سکتا تھا۔
چاچے فضل دین کی رجو میرے ہی نہیں ، میرے جیسے بہت سے گئے گزرے شہزادوں کے خوابوں کی شہزادی تھی ۔ اور ہم بھی بس شہزادے ہی تھے ۔
اپنی ماؤں کے شہزادے ۔ تنگ، کیچڑ بھری گلیوں ، بدبودار کھلی نالیوں اور ان کے کنارے آوارہ پاخانے پر بھنبھناتی مکھیوں کے ساتھ مانوس ، بغیر منہ دھوئے سارا سارا دن آوارہ گردی کرنے والے شہزادے۔
ایک دن سکول اور دو دن بابا شاہ ملنگ کے دربار پر آوارہ گھوم کر گھر لوٹ آنے والے شہزادے۔
ایک ایک جماعت میں کئی کئی سال گزار کر اساتذہ سے مضحکہ خیز القابات حاصل کرنے والے شہزادے۔
ہمیں جیسوں کو لوگ کہتے ہیں ، ” او جا! تو بھی شہزادہ ہی ہے۔”
خیر!
ان حالات میں اگر رجو میرے خوابوں کی شہزادی تھی تو میرے ہی خوابوں کی شہزادی تھی ۔ کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ کوئی مجھے اور رجو کو کیوں جانے گا کہ اعتراض کی نوبت آئے ۔
اور جو ہمیں جانتے تھے وہ میرے ہی جیسے شہزادے تھے ، جن کے خوابوں کی شہزادیاں بھی بس رجو جیسی ہی تھیں ۔
” او جا ! تو بھی شہزادی ہی ہے ۔”
ابا کی کھیل مرونڈے کی چھابڑی سے گھر جیسا تیسا
چل رہا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔
کسی نے کہا گنے کی گنڈیریوں کے کام میں پیسے زیادہ بچتے ہیں ۔ بس ابے نے شام کو چاچے کرم داد سے گنڈیریاں چھیلنا سیکھنا شروع کر دیا۔ ایک ہفتے کی ٹریننگ کافی رہی ۔ مضافات سے پونے گنے سے لدی ٹرالیاں ٹریکٹروں کے پیچھے بھاگتی ہرے ہرے، لمبے اور موٹے ، گداز گنے لاتیں تو ابا منڈی سے دو گٹھے صبح ہی صبح خرید کر سائیکل پر لاد لاتا۔ چھیل چھال کر گنڈیریاں بنائی جاتیں ۔
ابے نے ماسٹر غلام نبی سے لکڑی کی ریہڑی مناسب کرائے پر لے لی۔ میٹھی گنڈیریوں کو ٹوکے سے کٹاک ، کٹاک ، کاٹ کر ڈھیر لگا لیا جاتا۔ ابا ریہڑی پر لال رنگ کا پلاسٹک بچھاتا ، برف کا بڑا سا ٹکڑا جما کر اس کے اوپر میٹھی گنڈیریاں قطار اندر قطار سجاتا۔ اس اہتمام کے بعد شہباز کی دوکان سے خریدی ، دیسی گلاب کی خوشبودار، تازہ پتیوں کا چھڑکاؤ سا کردیا جاتا۔ ترازو باٹ ریہڑی کے نیچے رکھے جاتے۔ پھر چھیلے ہوئے گنوں کے لامبے ٹوٹے ریہڑی کے نچلے خانے میں ٹکائے جاتے۔ گنڈیریوں کی مٹھاس پر مدھ مکھیاں اور بھڑ امڈ امڈ کر آتے اور مٹھاس چاٹتے ، کاٹے بغیر لوٹ جاتے۔
زندگی کے پل ، پہر ، دن اور ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ عمر ایسے کٹتی گئی جیسے آبے کی گنڈیریاں ۔
کٹ کٹا کٹ ، کٹ۔ کٹ کٹا کٹ۔۔۔۔
اور ابے کے ٹوکے کی کٹ کٹا کٹ کے سر پر ہمارا سارا گھر دھمال ڈالتا رہا۔
کٹ کٹا کٹ ، کٹ کٹا کٹ ۔
دھم دھما دھم ۔ دھم دھمادھم ۔
ابا جو کماتا لا کر اماں کے ھاتھ پر رکھتا ۔
میں نے کبھی ابے کو اماں سے ناراض ہوتے، چیختے چلاتے نہیں دیکھا۔
ابا رات کو ریہڑی دھکیلتا تھکا تھکایا آتا ۔ ابےکی ریہڑی کے ساتھ ہی ساتھ ، اس سے آگے ہی آگے چھیلے گنوں کی بوجھل میٹھی خوشبو ہماری کوٹھڑی میں آگھستی۔
اماں اگر لیٹی ہوتی تو بھی فورآ اٹھ جاتی ۔ آگے بڑھ کر ابے کی ریہڑی کا اگلا کنارا پکڑ کر ریہڑی گھر کی دہلیز پار کرانے میں ابے کی مدد کرتی۔ مہکتے کچے آنگن میں ہلکی لکیریں بناتی ریہڑی صحن کے آخری کونے میں اپنی جگہ ٹک جاتی۔ ابا بچی ہوئی برف اور گنڈیریاں سب سے پہلے اماں کے حوالے کرتا ۔ اماں اوک بھر گنڈیریاں مجھے اور اوک بھر میری چھوٹی بہن کو دیتی ۔ اگر پھر بھی کچھ بچ رہتیں تو گیلی بوری میں لپیٹ کر کوٹھڑی کے کونے میں بچھے پلاسٹک پر سینت کر رکھتی ۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایک دن بھی ایسا گزرا ہو جو ابا ہمارے لئے، ہمارے حصے کی گنڈیریاں بچا کر نہ لایا ہو۔
ابا اپنے سرکا پٹکا کھول کر جھاڑتا اور سرپر ہاتھ پھیر کر اپنے چھدرے بالوں کو چھانٹتا۔
جوتا اتار کر اسے زور زور سے ٹھونک کر اس میں سے دن بھر کی تھکن اور گرد نکالتا پھر چارپائی کے نیچے رکھ دیتا۔
ابا کچھ دیر ننگے پیر پھر کر اپنے پاؤں کو سہلاتا اور پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر دن بھر کی کمائی رقم اماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔
” لے بھئی بھلی لوک ! آج کی “وٹک”۔
کل کے گنے کے پیسے مجھے نکال دینا۔”
اماں بسم اللہ پڑھ کر گن کر روپے علیحدہ کرتی اور ابے کو دیکر تھوڑے سے بچے ہوئے پیسے پلو میں باندھ لیتی۔ ان میں سے بجلی، گیس ، پانی ، دودھ، راشن, دوا دارو ، ہماری فیس ، کتاب کاپی ، کپڑا لتا ، لینا دینا جانے کیا کیا بھگتانا باقی ہوتا۔
ہم دو ہی بہن بھائی تھے ، جو باقاعدہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ کسی جسمانی عارضہ کی کار ستانی تھی۔ اس بات پر ابا نہ خوش تھا نہ ناراض ۔ اماں البتہ کبھی کبھی بہت افسوس کرتی کی میرا کوئی بھائی نہ تھا جو بازو بنتا اور گڈو کی کوئی بہن نہ تھی جو سہیلی بنتی ۔ ذاتی طور پر مجھے نہ کبھی بھائی کی کمی کھلی ، کہ محلہ میرے یاروں سے بھرا پڑا تھا اور نہ دوسری بہن کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ گڈو مجھے اتنی پیاری تھی کہ میری ساری توجہ اور سارا پیار بھی اس کے لئے کم تھا ۔
اگر میری اب تک کی کتھا کہانی سے کوئی یہ تاثر لے کہ ہم بہت مزے میں تھے اور کوئی خاص مسئلہ تھا ہی نہیں تو یہ سخت غلط فہمی ہو گی ۔
امی کی کڑھائی سے اکٹھی کی گئی رقم بھی ختم ہو جاتی تو ہمیں پتہ چل جاتا کہ کل ناشتے میں دھی نہیں ملے گا اور پراٹھے کی جگہ خشک روٹی ہوگی ۔ وہ بھی شائد رات کی بچی ہوئی ، باسی ۔
ہمیں اس صورت حال سے سمجھوتہ کرنے کی عادت ہو گئی تھی ۔ ہم جانتے تھے کہ بس یہی کچھ ممکن تھا جو ابا اور اماں جان مار کر ہمیں مہیا کر سکتے تھے۔ وہ نہ ہم سے کچھ چھپاتے تھے اور نہ بچاتے تھے ۔ سب دکھ سکھ سانجھا تھا تو گلہ کیا اور شکایت کیا۔
مگر بات تو میری اور رجو کی ہو رہی تھی ۔ ہم کدھر اماں اور ابے کی کہانی لے بیٹھے ۔ وہ تو پتہ نہیں کس مٹی کے بنے تھے ۔ لیکن تھے کسی ایک ہی مٹی کے ، یہ تو ہم بھی جان گئے تھے ۔
میں نے ابے اور امی کو خوب خوب تنگ کیا ۔ ابے کی محنت کی کمائی کی فیسیں ضائع کرتے کچھ شرم نہ آئی ۔ بس مست تھا ۔ اپنے ہمجولیوں میں یوں بھاگا پھرتا تھا جیسے زندگی مذاق ہی ہو ۔ ہر افق پر کہکشاں نظر آتی تھی ۔ ہر سراب ٹھاٹھیں مارتا دریا ، بلکہ سمندر دکھتا تھا۔
گڈو مجھ سے چھوٹی تھی ۔ پانچویں پاس کر کے گھر بیٹھ گئی اور ماں کی مدد گار بن گئی۔
کہتے ہیں لڑکیاں جلدی بڑی ہو جاتی ہیں ۔ گڈو ابھی کچھ زیادہ بھی بڑی نہیں ہوئی تھی کہ نذیر کی ڈولی میں بٹھا دی گئی۔ نذیر کا قصبہ ہمارے شہر سے بہت دور نہیں تھا، پھر بھی اتنی دور ضرور تھا کہ گڈو چاہتے ہوئے بھی ہمیں چار چھ مہینے سے قبل ملنے نہ آ پاتی۔ اپنے والد کے فوت ہونے کے بعد ، اپنی شادی سے پہلے ہی نذیر اپنے والد کا چھوٹا سا سائیکل پنکچر کا اڈہ اکیلا چلا رہا تھا ۔ بمشکل گھر کے اخراجات پورے کرتا۔ گڈو کے آجانے سے اسے گھر کی فکر کم ہو گئی کیونکہ گڈو کم عمر ہونے کے باوجود بڑی سگھڑ گرہستن نکلی۔ اس کے ذمہ دارانہ کردار نے اسے اپنی سسرال میں اتنا اہم بنا دیا کہ نذیر اور اس کی ماں کو لگتا گڈو دائیں سے بائیں ہوئی تو ان کا گھر گر پڑے گا۔
مجھے گڈو میں اماں کی جھلک نظر آتی ۔
ابے اور امی کو اس بات کی خوشی اور سکون تھا کہ گڈو اپنے گھر میں اتنی اہم بن گئی تھی ۔ شادی کے شروع میں ان کی اداسی دیکھی نہ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ یہ بہت بڑی کمی برداشت کر گئے۔
میری آوارہ گردی اور ابا کی کٹ ، کٹا ، کٹ ۔۔۔ میں میری زندگی بہت مزے سے گذر رہی تھی ۔
چاچے فضل دین کی ابے سے یاری نہ ہوتی اور میری امی کو وہ چھوٹی بہن نہ سمجھتا تو مجھ جیسے لاپرواہ لڑکے کو رجو کا ایک بال بھی اکھاڑ کر نہ دیتا ۔
رجو اماں کی لاڈلی بن گئی ۔
گڈو کے حصہ کی اوک بھر گنڈیریاں اب ہر رات رجو کا حصہ بنتیں ۔
نہ بنا تو میں کچھ نہ بنا ۔
بس ” شہزادے کا شہزادہ ” ہی رہا ۔
لاپرواہ اور کھلنڈرا ۔
کسی کے ابا کو مرنا نہیں چاہئے ۔
اور پھر میرے ابا جیسے ابے کو تو کبھی بھی نہیں مرنا چاہئے ۔
اس لئے کہ جب ایسے ابے مرتے ہیں تو پھر امیاں بھی زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں ۔
میرے ابے نے میرے ساتھ یہی کچھ کیا ۔
ایک شام کو چنگا بھلا کام سے واپس آیا ۔ ہماری چلو بھر گنڈیریاں ہم تک پہنچیں ۔ اماں کی معمول کی رسوما ت ادا ہوئیں ۔ رات کا کھانا کھا کر ، صبح کی تیاری کرکے ابا چھت پر جا سویا ۔
صبح دھوپ چڑھ آئی پر ابا نہیں اٹھا۔ امی نے مجھے کہا کہ ابے کو جگاؤ۔ اٹھے گا تو وقت پر گنڈیریاں کاٹ کر تیاری کرے گا۔ نہ جگایا تو ڈانٹے گا کہ سارا دن خراب کردیا ۔ شائد زیادہ تھک کر سویا ہے جو سویا ہی پڑا ہے ۔ اماں پراٹھے بنانے کی تیاری میں لگ گئی ۔ میں سیڑھیاں پھلانگتا چھت پر ابے کو جگانے گیا ۔ دیکھا کہ وہ چارپائی پر چت لیٹا تھا ۔ ڈبیوں والا کھیس چارپائی سے نیچے کچی چھت پر گرا پڑا تھا۔
میں نے ماتھے پر ھاتھ رکھ کر آواز دی تو ابا اٹھا ہی نہیں۔
پھر میرا ابا کبھی نہیں اٹھا۔
کبھی بھی نہیں ۔
دیسی گلاب کی پتیوں سےڈھکا مہکتا جنازہ اٹھا تو اماں ، گڈو اور رجو بے اختیار ساتھ ہو لیں ۔
محلے کی عورتیں بمشکل انہیں گلی کے نکڑ سے واپس لائیں ۔
ان کا بس چلتا تو ابے کے ساتھ ہی قبرستان جا بستیں ۔
پھر میں بھی کاہے کو گھر رہتا۔
ابے کو دفنانے کے لئے بھاگ دوڑ کرنا پڑی ۔
محلے کا قریبی قبرستان ، ارد گرد بڑی پرانی آبادی ہونے کی وجہ سے ، قبروں سے مکمل بھر چکا تھا۔ میں جب کھیلتا کودتا کبھی قبرستان میں جا نکلتا تو سوچا کرتا کہ مردے اتنی قربت میں کیسے رہتے ہونگے۔ کروٹ تک لینا محال ہوگا ۔ آج ابے کے لئے جگہ کی ضرورت پڑی تو مسئلہ کھل کر سامنے آیا ۔
نئی قبر کی جگہ باقی ہی نہیں بچی تھی ۔ ابے کے یاروں نے گورکن سے ساز باز کر کے ایک جگہ حاصل کر لی ۔ جب ابے کو دفن کرنے کا وقت آیا تو مجھے لگا کہ قبر شائد پرانی ہے اور چھیل چھال کر نئی بنائی گئی ہے ۔ میں شور مچانے ہی والا تھا کہ مجھے خیال آیا ،ابا کونسا پہلے سبھی چیزیں نئی استعمال کرتا تھا ۔ کتنی ہی بار اس نے لا تعداد استعمال شدہ چیزوں کے ساتھ بڑی خوشی سے گزارا کیا تھا ۔ مجھے لگا ابے کو اتنی مشکل سے حاصل کی گئی استعمال شدہ قبر پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ پھر قریب ترین قبرستان ہونے کی وجہ سے اماں کو بھی زیارت میں آسانی ہوگی۔
نہ میں نے اعتراض کیا نہ ابا کی میت نے ، اور ہم دونوں باخوشی اس جیسی تیسی قبر پر مطمئن ہو گئے ۔
ایک فضول سا خیال میرے ذہن میں ، اتنے صدمہ کے باوجود بھی ، جانے کدھر سے آ گیا ۔ میری اماں کی بھی تو میرے ابا سے دوسری شادی ہی تھی ۔ بالکل نوعمری میں بیوہ ہونے کے بعد ابا سے جو شادی ہوئی تو کسی کنواری دلہن کو بھی کیا راس آئی ہوگی جو اس بیوہ کو راس آئی ۔ ہم یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ابا اماں کے ساتھ زیادہ خوش اور مطمئن تھا یا اماں ابا کے ساتھ۔ ہم نے تو مشکل سے مشکل اور اچھے سے اچھے وقت میں دونوں کو کاندھے سے کاندھا ملائے یک جان و دو قالب ، مطمئن اور شاکر ، جیون نیا کھیتے دیکھا ۔ دونوں یوں لازم و ملزوم کہ کسی ایک کے بغیر گھر کا تصور، محال نہیں نا ممکن ۔
اماں شادی کے بعد شائد ہی کبھی میکے گئی ہو۔ ایک بار نانی کے بہت آصرار پر سات دن کے لیئے گئی تو ابا تیسرے دن ہی جا کر واپس لے آیا کہ، ” ہمارا گھر نہیں چلتا” ۔
آگرچہ گڈو اماں کی موجودگی میں بھی کھانا بنا لیتی تھی ، جو ابا کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ اماں نے بنایا ہے یا اس کی شاگردی میں گڈو نے ، لیکن جب اماں کی غیر حاضری میں گڈو نے ابا کو کھانا دیا تو ایسے لگا جیسے نوالے اس کے حلق سے اتر ہی نہیں رہے ۔
بولا،” گڈو برتن لے لو۔ تیری اماں نے تجھے اپنے جیسا کھانا بنانا سکھایا ہی نہیں ۔”
میں اور گڈو ایک دوسرے کی طرف کنکھیوں سے دیکھ ، مسکرا کر رہ گئے۔
ارے بات پھر اماں اور ابا کی شروع ہو گئی۔
مجھے شائد اور کوئی بات ہی نہیں آتی ۔
ابا فوت ہوا تو اماں روئی نہیں ۔
بس اماں اماں نہ رہی۔
لگتا کوئی اجنبی روح جانے پہچانے بت کو گھسٹتی پھرتی ہے ۔
بے جان سی گڑیا کی طرح ڈولتی ، ٹھوکریں کھاتی ، بے دھیان چلتی پھرتی ۔
صبح اٹھتی نماز پڑھتی اور قبرستان روانہ ہو جاتی ۔ ابے کی قبر پر کھڑی ہو کر فاتحہ پڑھتی ، پڑھتی ہی چلی جاتی ۔ کھڑی کھڑی تھک جاتی تو بیٹھ کر پڑھنا جاری رکھتی ۔ بہت دھوپ چڑھنے پر واپسی کی راہ پکڑتی ۔ کھانا بس نہ کھانے جیسا کھاتی ۔ کبھی دو لقمے لے لئے اور کبھی وہ بھی نہ لئے ۔ دسویں تک اماں آدھی رہ گئی اور چالیسویں تک اماں سے چارپائی چھوڑی نہ جاتی تھی ۔
ابے کے جانے کے ٹھیک دو مہینے اور چار دن بعد اماں بھی رخصت ہو گئی ۔
اماں کے لئے قبر کا بندوبست ابا کے دوستوں ہی نے کیا ۔ ابا کی قبر سے آٹھ دس قبروں کے فاصلے پر ایک قبر کی جگہ بنا لی گئی ۔
ابا اور پھر اماں کے مرنے پر میں اور رجو بالکل لاوارث ہو گئے ۔ ابا تھا تو میں تقریبآ بے کار ہی تھا ۔ زیادہ سے زیادہ گنے چھیلنے اور گنڈیریاں کاٹنے میں کبھی کبھار ابے کی کچھ مدد کر دیتا ۔ ابا ریہڑی لے کر بازار نکل جاتا اور میں آوارہ گردی کو ۔ ابے کی عادت زیادہ سختی والی نہیں تھی ۔ بس مجھے آرام سے اور بار بار سمجھاتا کہ میری شادی ہو چکی تھی اور مجھے ذمہ دار ہو جانا چاہئے ۔ میں سر نیچے کر کے سن لیتا اور کوئی اثر نہ لیتا۔
اماں البتہ زیادہ زور دیتی اور شرم دلاتی کہ شادی شدہ ہو کر بھی میں غیر ذمہ دار تھا۔ کل کو بچے پیدا ہو جائیں گے تو ضروریات بڑھ جائیں گی ۔ اماں یہ بھی کہتی کہ ابے کی بوڑھی ہڈیاں کب تک میرا اور میری بیوی سمیت گھر گھرہستی کا بوجھ اٹھائیں گی ۔ میں جوان تھا ہٹا کٹا تھا ۔ ساتویں سے آگے پڑھ کر نہیں دیا تھا نہ کوئی ہنر سیکھا تھا تو میرا بنے گا کیا ۔ مجھے ابے کی بات کا کچھ اثر ہوتا نہ اماں کا۔
میں تو تھا ہی ازلی ، مستند ڈھیٹ ۔
اماں کا چالیسواں بھی گذر گیا ۔ ہمارے ہاں مرگ گھر والوں کے لئے مالی بوجھ ہی بنتی ہے ۔ رشتے دار ہاتھ بٹانے کی بجائے اخراجات کا باعث بنتے ہیں ۔ کفن ، قبر، مولوی صاحب ، قُل ، دسواں اور چالیسواں۔
پھر جس گھر میں اوپر تلے دو اموات ہو جائیں ، اور رخصت بھی وہ ہوں جو بنیادی ستون ہوں ، جن پر مکمل گھر ٹکا ہو تو آپ اندازہ لگائیں کہ باقی کیا بچے گا۔
ہمارا پس انداز کچھ زیادہ نہیں ہوتا تھا ۔ جب ہوش آیا تو تقریبآ قلاش تھے ۔
ماسٹر غلام نبی والی ریہڑی ابے کے مرنے والے دن سے اسی کونے میں کھڑی تھی جہاں ابا اسے کھڑا کر گیا تھا ۔ میں جب بھی اسے دیکھتا تو سو منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے۔ کیسے ابا امی کی مدد سے ، آخری بار ریہڑی گھر کے اندر لایا تھا ۔ مجھے بھول ہی نہیں پاتا تھا کہ اس شام کیسے روز ہی کی طرح کھلی کھلی اماں ، بے مقصد ابے کے پیچھے چلتے ، صحن سے پار دیوار تک گئی تھی جہاں ابے نے روزانہ کے معمول والی جگہ ریہڑی کھڑی کر کے کرتے کی جیب میں مسکراتے ہوئے ہاتھ ڈالا تھا ۔ اس دن ایسے محسوس ہوا تھا جیسے ابا دن بھر کے جمع شدہ پیسے ایک منٹ بھی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ جو خوشی اسے پیسے اماں کے ہاتھ پر رکھ کر ملتی تھی وہ جلد سے جلد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔
بات پھر اماں ابا کی شروع ہو گئی ۔ لگتا ہے میری زندگی میں اور کچھ ہے ہی نہیں ۔ جیسے مجھے اور کوئی بات آتی ہی نہیں ۔ جیسے میری زندگی اماں ابا پر رک گئی ہو ۔
لیکن زندگی بھی رکی ہے کبھی ۔
جب روٹی کے لالے پڑے تو میں نے سوچا کہ خود تو مانگ تانگ کر کھا بھی لوں لیکن بیوی کا کیا کروں گا ۔ پھر ایک جان اور آنے والی تھی ۔
زندگی یہ نہیں دیکھتی کہ کون کتنا لاڈلا یا کتنا لاپرواہ تھا ۔ زندگی بے رحمی سے اپنا خراج مانگتی ہے۔
اب جب سرپر کوئی نہیں تھا، جب اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا تو مجھے بہرحال بدلنا تھا۔ اب نہ ابا تھا کہ سارا آسماں ہمارے سر پر تھامے رکھے ، نہ اماں تھی کہ دیکھوں تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے۔
اب میں تھا ، رجو تھی اور اک آنے والی روح تھی ، بس۔
جب سب بدل گیا تھا تو میں بھی خود ہی بدل گیا۔
اب کون تھا جو میرے لاڈ دیکھتا۔
میں نے اک عزم کے ساتھ ریہڑی صحن کے کونے میں لگے پانی کے نل کے پاس کھڑی کی اور مہینوں کی جمی دھول مٹی کو دھو ڈالا۔ لال پلاسٹک کو کپڑے دھونے والے صابن سے دھویا اور ریہڑی کو صحن میں مارچ کی دھوپ میں خشک ہونے کے لئے کھڑا کردیا ۔
اماں کی آہنی صندوقچی سے بچے کھچے پیسے لے کر صبح ہی صبح سبزی منڈی پہنچ گیا ۔ دو کی بجائے ایک گٹھا گنے خریدے اور سائیکل پر لاد بمشکل گھر لایا۔ میں نے اور رجو نے مل کر گنے چھیلے اور بڑی دقّت سے ٹیڑھی میڑھی گنڈیریاں کاٹیں ۔
صبح ہی صبح میں ترازو باٹ جما ، ریہڑی لے کر نکلا تو رضیہ میرے ساتھ بابر گلی تک آئی ۔
مجھے رخصت کرنے لگی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ یقینآ سوچ رہی ہوگی کہ ابا ہوتا تو میں کبھی بھی اس کام میں نہ پڑتا ۔ بس آوارہ گرد شہزادہ ہی بنا رہتا۔
وقت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے اور کیا کیا کروا دیتا ہے ۔
ریہڑی دھکیلتے دھکیلتے میں کتابوں کی ان دکانوں کے سامنے جا پہنچا جہاں ابا ریہڑی لگایا کرتا تھا ۔
میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ ایک بڑی مونچھوں اور پھولے ہوئے پیٹ والا فروٹ چاٹ فروش عین اس جگہ ریہڑی لگائے دھندہ کر رہا تھا جہاں ابا کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔ میری ریہڑی پر نظر پڑی تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور مونچھوں پر تاؤ دے کر لال آنکھیں گھمائیُں ، جیسے کچا چبا جائے گا ۔ میں خوف زدہ ہو کر جھینپتے ہوئے ریہڑی دھکیلتا ، کنی کترا کر ، آگے نکل گیا ۔ بڑی سڑک سے پہلے گلی کے نکڑپر بجلی کے کھمبے کے ساتھ مجھے ریہڑی کھڑی کرنے کی جگہ مل گئی ۔ میں نے ریہڑی وہیں ٹکالی ۔ جوں جوں وقت گزرا بازار کی رونق بڑھتی گئی ۔ میرا پہلا گاہک آدھ کلو گنڈیری خرید کر لے گیا تو مجھے لگا میں دنیا میں آنے کا مقصد پا گیا ہوں ۔
میں نے خیالوں ہی خیالوں میں دن بھر کی “وٹک “رجو کی ہتھیلی پر رکھی اور مسکرا دیا ۔
اگلے دو گھنٹے میں دو کلو گنڈیریاں مزید بک گئیں ۔ میں نے حساب لگایا تو بکری کی رفتار کوئی تسلی بخش نہیں تھی ۔ خود کو دلاسا دیا کہ پہلا دن ہے ، نیا اڈہ ہے، رفتہ رفتہ گاہک بڑھ جائیں گے ۔
شام تک پانچ کلو گنڈیریاں بک گئیں ۔
کٹی ہوئی گنڈیریوں میں سے ابھی بھی کافی بچ رہی تھیں ۔
میں نے حساب لگایا کہ دھندہ سمیٹوں تو اسی وقت تک گھر پہنچ جاؤں گا جس وقت رات کو ابا گھر پہنچ جاتا تھا۔
ترازو باٹ سنبھالے ، بچی ہوئی گنڈیریوں کو ململ کے کپڑے سے ڈھانپا اور گھر روانہ ہوا۔
گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو رجو بھاگتی آئی ، دروازہ کھولا اور ریہڑی کو میرے ساتھ دھکیلتی گھر کے اندر لے گئی ۔ میں نے ریہڑی عین وہیں کھڑی کی جہاں ابا کھڑی کیا کرتا تھا اور چلو بھر گنڈیریاں پکڑ کر رضیہ کی طرف دیکھا ۔
میرا دل بھر آیا ۔
ذرا سنبھل کر میں نے جیب میں ھاتھ ڈالا اور دن بھر کی کمائی نکال کر رجو کے ھاتھ پر رکھی ۔
” یہ لو بھلی لوک آج کی” وٹک “”
مجھے گنوں کے لئے رقم نہیں چاہئے تھی کیونکہ میرے کل کے بچے آدھے گنے ابھی باقی تھے ۔
اگلے دن پھر معمول کے مطابق میں ریہڑی لے کر کل والی جگہ پر جا ٹکا ۔
ابھی ریہڑی کھڑی ہی کی تھی کہ خاکروب جھاڑو پکڑے آپہنچا اور پانچ روپے کا تقاضہ کرنے لگا۔ پتہ چلا کہ یہ روزانہ کا بھتہ اسے سب ریہڑی والے دیتے ہیں ۔ شکر ہے جیب میں دس روپے تھے سو اس سے جان چھڑائی۔
آج گاہکی کل کی نسبت بہتر تھی ۔ دوپہر تک تین چار کلو گنڈیریاں نکل گئں ۔ میں خوش تھا کہ کام چل نکلا ہے اور جلد ہی میں ابے جتنی کمائی کرنے لگوں گا۔
سہ پہر تین بجے کے قریب بازار میں ایک غلغلہ اٹھا۔
آنا فانآ دو ٹرک اور درجنوں کارندے غارت گری کرتے آ وارد ہوئے ۔
فروٹ چاٹ والا مچھندر ریہڑی بھگا کر قریبی گلی میں گھس گیا ۔ میں ابھی حیرت زدہ ، حواس باختہ صورت حال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ میری ریہڑی قابو کر کے بڑی سرعت سے گنڈیریوں اور باقی ساز و سامان سمیٹ ٹرک پر لاد دی گئی۔ میں نے بھاگ کر ٹرک پر چڑھنے کی کوشش کی تو ایک ڈنڈا میرے سرپر پڑا اور ایک تھپڑ میرے منہ پر ۔ میں درد اور توہین کے باعث ساکت ہو کر رہ گیا۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے میونسپلٹی کا تہہ بازاری کا عملہ اور ٹرک میری ساری کائنات سمیٹ کر غائب ہو گئے ۔
شام گئے میں لٹا پٹا گھر پہنچا ۔
رجو مجھے یوں بدحال دیکھ کر سخت پریشان ہوئی ۔ اگلی صبح اور بری ثابت ہوئی ۔
ماسٹر غلام نبی صبح ہی صبح آ دھمکا ۔ بولا ابا کی شرافت کی وجہ سے اس نے کئی مہینے سے ریہڑی کا کرایہ نہیں لیا تھا اور اب ریہڑی ہی چلی گئی تھی ۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ وہ جرمانہ بھر کر میونسپلٹی سے اپنی ریہڑی واپس لے آئے گا اور باقی کرایہ بھی نہیں مانگے گا لیکن آئندہ کے لئے مجھ نکمے کو ریہڑی نہیں دے گا۔
میں اور رجو اتنے پریشان ہوئے کہ ہمارے منہ سے کوئی دلیل بھی نہ نکلی ۔ بس ٹک ٹک اسے غصے سے بھنا کر جاتا دیکھتے رہے ۔
اس کے جانے کے کافی دیر بعد تک ہم میں سے کوئی کچھ نہ بولا۔
ہم بس بے حس و حرکت سے ہو گئے ۔
ایسے لگا جیسے ابا اور اماں کی محبت کی نشانی کوئی ہم سے چھین لے گیا ہو ۔
جیسے ہمارے گھر کی رونق چھن گئی ہو۔
جیسے جینے کی امید مدھم پڑ گئی ہو۔
دو دن تک ہم اس صدمے سے بے حال رہے۔ رجو گھر کے کام کاج میں دل لگانے کی کوشش کرتی لیکن پھر پھرا کے خالی خالی سی میرے پاس آ بیٹھتی ۔
میں نے کوشش کی کہ گھر سے باھر کوئی مصروفیت ڈھونڈھوں ، کام کی کوئی سبیل سوچوں لیکن کچھ بھی نہ سوجھا ۔
اسی خالی کھوکھلے پن کو لئے میں ایک دن سڑکوں پر نکل گیا ۔ شام تک آوارہ گھوما کیا ۔ تھک گیا تو کٹی پتنگ کی طرح ڈولتا اک چوک میں بنے فوارے کے گرد بنی فٹ ڈیڑھ فٹ اونچی دیوار پر ٹک گیا۔
چوراہا زیادہ مصروف نہیں تھا ۔ جب لال بتی ایک طرف کی گاڑیوں کو روکتی تو اشارہ کھلتے کھلتے پانچ سات گاڑیاں اکٹھی ہو جاتیں ۔ دو بھکاری لڑکے اور ایک بوڑھی عورت گاڑیوں کے بند شیشوں پر دستک دے کر بھیک مانگتے ۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی جس کا ایک بازو کٹا ہوا تھا گاڑیاں صاف کرنے والے کپڑے کے ٹکڑے بیچ رہا تھا ۔ اچانک میری نظر پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے پر پڑی جو سرکنڈے پر لال گلاب اور سفید چمبیلی کے پھولوں والے گجرے بیچ رہا تھا ۔ اس لڑکے کے کپڑے صاف تھے اور بال تیل لگا کر کنگھی کئے ہوئے تھے ۔ اس نے ایک کان میں چنبیلی کا پھول اڑس رکھا تھا اور چہرے پر معصومیت تیرتی پھرتی تھی ۔
میں نے غور کیا تو مجھے یہ لڑکا چوک میں موجود سب کاروباری لوگوں سے بہتر اور دلچسپ لگا۔
آچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور جانے کتنے دن کے بعد میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
میں فوارے کی دیوار سے اٹھا اور تیز تیز قدموں سے اپنے محلے کی طرف روانہ ہوا ۔
ہماری گلی کے نکڑ پر شہباز پھولوں والا ، حسب معمول ، اپنی دوکان مہکائے بیٹھا تھا۔
” یار شہباز مجھے گلاب کے پھول اور چنبیلی کی کلیاں چاہئیں ۔”
میری بات سن کر وہ چونکا ۔
بہرحال میں نے بڑے عمدہ تروتازہ پھول اور کلیاں خریدیں اور گھر روانہ ہوا۔
رجو نے مجھے آتے دیکھا تو اس کے چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں چمک آ گئی ۔
” رضیہ رانی مجھے گجرے بنا دو۔ میں گجرے بیچوں گا”
میں نے پھولوں کا پیکٹ رجو کے حوالے کیا۔
رضیہ نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کچھ کہنے کو منہ کھولا لیکن بات کئے بغیر ہی پیکٹ لے کر کمرے میں گھس گئی ۔
رات بیٹھ کر بڑی دلجمعی سے رجو نے پچیس گجرے بنائے ۔ اتنی نفاست سے کہ دل خوش ہو گیا ۔ ہمیں پتہ تھا کہ گجرے زیادہ تر شام کو بکتے ہیں اس لئے ہم نے گجروں کو پانی چھڑک کر دن بھر تازہ رکھا۔ شام سے پہلے میں گجرے سرکنڈے پر سجائے گھر سے کوس بھر دور اس چوک پر جا کھڑا ہوا جس کی ایک سمت میں ایک بڑی مارکیٹ کا راستہ تھا اور دوسری طرف بڑے بڑے فلیٹس والی بلند و بالا عمارات تھیں ۔
شام تک میرے دو تین گجرے ہی بکے ۔
مجھے گھر کی فکر تھی ، رجو سے پیار تھا اور آنے والی روح کے لئے میرا دل محبت سے بھرا ہوا تھا ۔ مجھے کم از کم اتنی رقم کمانی تھی کہ میں گھر چلا سکوں ۔
مجھے سب گجرے بیچنے تھے ۔
ایک ایک گجرے کا معاوضہ میرے آنے والے کل کی عافیت کی ضمانت تھا۔
ہر بکتے گجرے کے ساتھ میرے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔
رات ہونے پر لوگ جوڑوں کی شکل میں تقریبات کے لئے نکلے تو گجروں کی بکری میں تیزی آئی ۔
پھر کافی دیر مجھے بیکار انتظارکرنا پڑا ۔
۔ اسی دوران مجھے سب سے زیادہ مزہ ایک ستر پچہتر سالہ جوڑے کو گجرا بیچ کر آیا ۔ بوڑھے مرد نے بڑے رچاؤ سے خرید کر اپنے کانپتے ہاتھوں سے گجرا اپنی ہم عمر خاتون کو پہنایا۔ مجھے ابا اور اماں یاد آگئے اور میں اداس ہو گیا ہے ۔
” یقینآ آج اس عمر رسیدہ جوڑے کی شادی کی
سالگرہ ہوگی ۔”
میرے ذہن میں خیال آیا ۔
“پچاسویں شائد؟”
میرا ذہن آوارہ ہوا۔
” لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ وہ تو پہلی سالگرہ والوں سے زیادہ خوش اور مطمئن لگ رہے تھے ۔
اس عمر میں بھی ایک دوسرے میں منہمک۔”
رات بھیگی تو ایک اور طرح کے گاہک آنا شروع ہو گئے ۔ وہ جنہیں دیکھنے ہی سے پتہ چل رہا تھا کہ شب بھر کا اہتمام کئے پھرتے ہیں ۔
گجرے بیچتے بیچتے تقریبا آدھی رات بیت گئی ۔ میں نے رجو کے انتظار کا سوچا لیکن پھر فیصلہ کیا کہ میرے کامیاب کاروبار کا پہلا دن ہے، میں رجو کو سمجھا دوں گا کہ اتنی رات گئے کیوں واپس آیا ہوں لیکن سب گجرے بیچ کر ہی جاؤں گا۔
رات ڈیڑھ بجے کے قریب میرے پاس صرف ایک گجرا رہ گیا۔
جیب میں رکھے کرنسی نوٹوں کی حرارت میں اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا ۔
اب سڑک پر اکا دکا گاڑی بہت دیر بعد آتی ۔
سڑکیں سنسان ہونے لگیں ۔ چوک کے اشارے سرخ اور سبز روشنی دکھانے کی بجائے بار بار اور جلدی جلدی مسلسل پیلی روشنی دکھانے لگے ۔ اس کا مطلب تھا کہ اب اس چوک میں اشارے کے سبز ہونے کے انتظار میں گاڑی کھڑی کرنا ضروری نہیں ۔
میں نے اپنے آخری گجرے پر نظر ڈالی ۔
اسی اثنا میں ایک بڑی سی شاندار سیاہ رنگ کی کار آکر میرے پاس رک گئی ۔ پچھلی نشست کا شیشہ کھلا۔ ایک ادھیڑ عمر کا خوش پوش شخص نظر آیا جس کا سرخ و سفید چہرہ دمک رہا تھا ۔ آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں ۔ ساتھ کی سیٹ پر کوئی بائیس تئیس سال کی نوخیز لڑکی ، کہ جس کا حسن نظر ڈالنے کی ہمت بھی چھین رہا تھا تقریبآ نیم دراز مرد کے اوپر گری پڑتی تھی ۔
” مجھے گجرا دے دو ۔ ”
مجھے مرد کی لکنت بھری لہراتی آواز سنائی دی ۔
میں بے حس و حرکت کھڑا رہا ۔
لڑکی نے مدہوشی میں اپنا بازو اوپر اٹھایا اور گورے بازو کی خوب صورت کلائی پر اپنے دوسرے ہاتھ سے دائرہ بنایا کہ گجرا کہاں چاہئے ۔
مرد نے دوبارہ ھاتھ باہر نکال کر مجھے اشارہ کیا ،
” گجرا دے دو۔”
میں پھر ویسے ہی کھڑا رہا ۔
مرد کا ہاتھ اس کے لباس میں غائب ہوا ۔ واپس نکلا تو اس کے ہاتھ میں پانچ سو کا نیا نوٹ تھا جو اس نے میری طرف بڑھایا ۔
” لڑکے یہ سارے پیسے لے لو اور مجھے گجرا دے دو”
میں نے ایک لحظہ کے لئے سوچا ۔ پانچ سو کا نیا نوٹ سامنے لہرا رہا تھا ۔
مجھے فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی ۔
میں فیصلہ کن انداز میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
کھڑکی کی طرف نظر کی تو حسینہ ابھی بھی اپنی گوری گلابی کلائی پر دوسرے ہاتھ کا ہالہ بناتی خیالی گجرا پہن رہی تھی ۔
یہ اشارہ مدہوش مرد کی بے تابی کو دوچند کرتا تھا۔
اچانک مجھے اس گوری کلائی کی جگہ رجو کی کھردری سی سانولی کلائی ، ایک لحظہ کے لئے ، نظر آئی اور غائب ہو گئی ۔
میرا فیصلہ اٹل ہو گیا۔
” گجرے ختم ہو گئے ہیں بابو جی ”
میں دو قدم مزید پیچھے ہٹا اور اپنے گھر کی طرف منہ کر کے تیز تیز چلنے لگا۔
چند قدم چل کر میں نے مڑ کر دیکھا تو گورا تنو مند بازو پانچ سو کا نیا نوٹ ابھی تک میری طرف لہرا رہا تھا۔
میری رفتار میرے گھر کی سمت اور تیز ہو گئی ۔
رجو میری منتظر ہو گی اور اماں کی اوک بھر گنڈیریاں میں کسی قیمت پر نہیں بیچ سکتا تھا ۔
پانچ سو روپے میں بھی نہیں ۔
یہ میری ” شہزادی ” کا گجرا تھا ۔
آخری بچا ہوا گجرا۔

تبصرے
ــــــــــــــ
ڈاکٹر ریاض تاھویدی(کشمیر)
افسانہ “آخری گجرا” ایک بھرپور افسانہ ہے۔۔۔منظم پلاٹ ‘موزوں کردارنگاری’آسان اسلوب’مناسب کہانی۔۔۔کہانی ایک بہتی ندی کی طرح چل رہی ہے اور آخر پر لمبا سفرطے کرتے کرتے مدھم رفتار سے ٹھر جاتی ہے۔افسانے میں کہیں پر بھی کوئی غیرحقیقی منظر یا واقعہ ٹھونس نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے قرات کے دوران لطافت میں اضافہ ہورہا ہے ۔اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ افسانہ شروع سے لیکر آخر تک کردار کی زندگی ‘گھر’شادی’والدین اور پھرگھر چلانے کی دوڑ دھوپ وغیرہ جیسے حقیقی مناظر دکھانےاور مرکزی کردار کی بدلتی ہوئی ذہنی کیفیات اور عملی تجربات کوفکشنائز کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔دوران قرات قاری کو کئی جانے پہچانے تجربات و مشاہدات سے واسطہ پڑتا ہے جس سے افسانے کی اعتباریت بڑھ جاتی ہے۔مجموعی طور پر کہانی کو ماہرانہ اسلوب و تخئیل سے کرافٹ کیا گیا ہے جس کی وجہ افسانہ کلاسیکل حیثیت کا حامل نظر آرہا ہے۔۔۔۔دلچسپ افسانے کے لئے مبارک باد
امین بھایانی
محترم Muhammad Javed Anwar بھائی کا یہ افسانہ اُن کی کتاب #برگد میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔
گو کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کم و بیش تمام تر احبابِ گرامی کو یہ افسانہ پسند آیا ہے۔ مگر میں یہاں اپنی بات کروں گا۔
جب میں نے یہ افسانہ پڑھا تو میں دیر تلک اِس کے فسوں میں غلطاں و پیچاں رہا۔ بات یہ ہے کہ یہ افسانہ میرے مزاج کا افسانہ ہے۔
میرے مزاج کا۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟
جی دراصل میں ایک عام سا آدمی ہوں اور عام انسانوں پر عام سے افسانہ قلم بند کیا کرتا ہوں۔ سو جب میں نے یہ افسانہ پڑھا تو مجھے بڑی ہی خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک بیورکریٹ کی اُونچی کرسی پر براجمان ایک صاحبِ اختیار کے قلم سے ایک عام سے سے “شہزادے” کا افسانہ اور وہ بھی اتنا فسوں خیز۔
پھر میرے دل نے کہا:
” او جا! تو بھی شہزادہ ہی ہے۔”
جاوید بھائی، بیورکریٹ تو شاید کچھ سالوں یا چند دھائیوں پہلے بنے ہوں گے البتہ اُن کے اندر کے پیدائشی “گرائیں شہزادے” نے کبھی خود پر اُس بیورکریٹ کو ہرگز حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس بات کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب اس بڑے بیورکریٹ نے میری کتاب #بھاٹی_کا_روبن_گھوش نہایت ہی خاموشی کے ساتھ خود خرید کر فیس بک پر اپنی پوسٹ سے مجھے اور دیگر احباب کو آگاہ کیا۔
خیر!
واپس آتے ہیں شہزادے کی طرف۔
جاوید بھائی نے کس کمال فنکارانہ مہارت کے ساتھ اس افسانے میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ غریب شہزادے دل کے کتنے امیر ہوتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو اس سارے افسانے میں ایک نہیں دو شہزادے ہیں۔
ایک تو شہزادہ خود اور دوسرا اُس شہزادے کا ابا۔
بلکہ اگر میرے دل سے آپ پوچھیں تو میں تو کہوں گا کہ اصیل اور سُچا شہزادہ تو ہے ہی ابا۔
اگر ابا، اماں کو “اوک بھر گنڈیریاں” اور “آج کی وٹک” روز بلاناغہ نہ دیتا تو شاید شہزادے کو بھی “آخری گجرا” اپنی شہزادی کو دینے کی توفیق نہ ہوتی۔
احباب تو اس افسانے کو ایک رومانوی افسانے کے طور پر لے رہے ہیں اور ماشاءاللہ بجا طور ہر لے رہے ہیں۔ مگر میں اس افسانے کو اماں کی نظروں سے دیکھ رہا ہوں، ایک بیٹے کے نظریہ سے پرکھ رہا ہوں۔
میں بھی بطور بیٹے کے آج وہ سارے معمولی نوعیت کے ایسے کام جو میرے ابو مرحوم کیا کرتے تھے جن کی شاید بظاہر تو کوئی ایسی حیثیت و اہمیت نہ ہو مگر وہ ایک بچے کی ذہن سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
ماشاءاللہ بہت خوب، جاوید بھائی، آپ کا یہ افسانہ بظاہر سیدھے سادھے عام سے شہزادوں کی ایک کتھا ہے مگر اس کتھا میں کیا فسوں اور کیا گداز ہے۔
میری جانب سے بھرپور داد و تحیسن اور نیک تمنائیں
معظم علی
یہ شاہکار ہے
ماننا پڑے گا ۔ غربت کی انتہا پر رہنے والے میاں بیوی، محبت کے گلابوں میں گندھی ہوئی زندگی جیتے ہوئے ۔ اس افسانے کا ایک ایک کردار اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑا ہے ۔ منظر نگاری بھی کمال کی ہے ۔ مجھے اس افسانے کے ٹریٹمنٹ نے متاثر کیا ۔ سادگی میں پرکاری، بے خودی میں ہشیاری، افسانہ ہے کہ جادو ہے، حیرتوں کے ہزار جہاں وا ہوتے چلے جاتے ہیں
اس فن پارے میں ٹائپو کی غلطی جچتی نہیں
ہمیں جیسوں کو لوگ کہتے ہیں
ہمی جیسوں کو لوگ کہتے ہیں
ابا کی کھیل مرونڈے کی چھابڑی
ابا کی کھیل مرُنڈے کی چھابڑی
لفظ گنڈھیری ہے غالباً
گنڈیری درست تلفظ کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے
ریہڑی نہیں
ریڑھی ہے اور خاص طور پر چونکہ پنجابی معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے تو ہمیں ان الفاظ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا پڑے گا ورنہ ہندوستان میں ریہڑی ہی مستعمل ہے
بھڑ آتی ہے یا آتا ہے؟ صاحبان علم سے سوال ورنہ پنجاب میں تو بھڑ کو کسی بھی علاقے میں ما سوائے “ڈیموں” کہنے والوں کے مذکر نہیں سنا
ابّے کو بعض جگہوں پر آبے لکھا گیا ہے
پروف ریڈنگ سے اور نظر ثانی سے ان اغلاط کو درست کیا جا سکتا تھا
ایک اور خوبصورت تخلیق پر داد
ارشد عبدالحمید
1 – میں تقریباً چار برسوں سے فیس بک کے مختلف فورمز پر افسانوں کی بساط بھر تنقید اور تبصرے کرتا آ رہا ہوں۔ ہر چند میرا رجحان افسانے کے متن اور اس کی مبادیات پر گفتگو کا رہا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ افسانے کی ساخت پر بھی کچھ گفتگو کی جائے۔ اور اس کی شروعات کے لیے جنابMuhammad Javed Anwar صاحب کے افسانے ” آخری گجرا ” سے بہتر اور کون سا افسانہ ہو سکتا ہے؟
” آخری گجرا ” کا موضوع محبت ہے ۔ ۔ محبت جو نہ دولت دیکھتی ہے نہ حسن ۔ ۔ نہ محرومی دیکھتی ہے , نہ آسائش ۔ ۔ محبت بس محبت ہے اور اس کا اظہار کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے ۔ ۔ ان میں ایک طریقہ ہے ایثار ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ اب یہ جو تھیم ہے ۔ ۔ اس پر کوئی افسانہ لکھے تو اس کے بھی کئی طریقے ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ساختیاتی اعتبار سے جاوید انور صاحب نے جس طریقے کو اپنایا ہے ۔ ۔ وہ انطباقی طریقئہ کار ہے ۔ ۔ ۔ راوی واحد متکلم میں بات کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ تو ظاہر ہے کہ آپ بیتی سنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن راوی اپنے قصے کو اہمیت نہیں دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ وہ خود کو ایک کم تر درجے کا ۔ ۔ ۔ ادنیٰ سا انسان بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ اتنا کم تر کہ وہ خود کی کہانی سناتے سناتے ۔ ۔ ۔ اپنے والدین کی کہانی سنانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ اور والدین کی کہانی کو وہ اتنے شاندار طریقے سے سناتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ افسانہ اس کے والدین ہی پر مرکوز ہے ۔ ۔ ۔ وہ اکثر آپ بیتی سناتے سناتے اپنے بیانیہ میں کہتا بھی ہے ۔ ۔ کہ ” ارے ! بات پھر ابا اماں کی شروع ہو گئی ۔ ۔ ۔مجھے شاید اور کوئی بات آتی ہی نہیں ۔ ۔ ”
لیکن ظاہر ہے کہ افسانہ تو یہ راوی ہی کا ہے ۔ ۔ ۔ اور محبت تو اسی کی زیر بحث ہے ۔ ۔ ۔ تو آخر وہ والدین کی کہانی پر کیوں اتر آتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اس لیے کہ اس افسانے کی ساخت انطباقی ہے ۔ ۔ یعنی وہ اپنے والدین کی کہانی سنا کر اس کا انطباق اپنی محبت پر کرتا ہے ۔ ۔ ۔ اورافسانے کی یہ انطباقی ساخت ایک دو نہیں ۔ ۔ فن اور فکر کے متعدد مسائل حل کرتی ہے۔آئیے دیکھیں کہ افسانے کی اس ساخت کے ذریعے افسانے کی کون سی خصوصیات نمایاں طور پر ابھر کر آئی ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ اس انطباقی طریقئہ کار نے راوی کو ایک نہایت مضبوط کردار کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ۔ ۔ وہ خود اپنے منہ سے اپنی بے وقوفیاں , اپنی کوتاہیاں اور اپنے لا ابالی پن کا اظہار بار بار کرتا ہے ۔ ۔ اور خود کو شہزادہ ۔ ۔ شہزادہ ۔ ۔ پکارتا رہتا ہے ۔ ۔ لیکن وہ افسانے کے مجموعی تاثر میں شہزادہ ہر گز نہیں ہے ۔ ۔ بلکہ نہایت سمجھدار اور انسانی زندگی , نیز محبت کے اعلیٰ جذبات کو باریکی کے ساتھ سمجھنے والا شخص ثابت ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اس کا یہ کردار در اصل اپنی کم تری اور والدین کی صورت حال کی برتری بیان کرنے کے باعث ابھر کر پورے تاثر کے ساتھ سامنے آتا ہے۔
والدین کی زندگی کے بیان سے افسانے کا ایک اور مسئلہ حل ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ کہ زندگی کے گوناں گوں مسائل ۔ ۔ ۔ ان کی پیچیدگی اور ان کے حل کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ نبرد آزمائی ۔ ۔ ۔ نیز ان مشکلات میں گلے گلے ڈوبے ہونے کے باوجود ۔ ۔ ۔ ماں اور باپ کی محبت میں کسی طرح کا خلل واقع نہ ہونا ۔ ۔ بلکہ اس کا روز افزوں فروغ پانا ۔ ۔ ۔ یہ سب دیکھنے میں ایک sub-plot کی طرح محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ لیکن ان کا انطباق راوی کی محبت کی کہانی پر اس زبر دست طریقے سے ہوا ہے کہ یہ sub-plot افسانے کا جزو لا ینفک بن جاتا ہے۔
آئیے انطباق کی بعض صورتوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں ۔ ۔ ۔
والد ایک محنت کش انسان ہیں ۔ ۔ وہ اپنے خاندان کی کفالت اور بیوی کی محبت میں محنت اور ایمانداری کا کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہیں ۔ ۔ وہ عزت کے ساتھ چھابڑی ۔ ۔ ریہڑی لگانے اور دن بھر مشقت کرنے سے کبھی جی نہیں چراتے ۔ ۔ ۔ اسی کا اتباع راوی بھی کرتا ہے کہ وہ بھی ۔ ۔ ۔ ایک زمانے میں شہزادہ ہونے کے باوجود ۔ ۔ گنڈیریوں کی ریہڑی لگاتا ہے اور ریہڑی چھن جاتی ہے تو گجرے بیچنے لگتا ہے۔
اس کے والدین کی ازدواجی سمجھ بوجھ اور آپسی محبت ایک اور مثال ہے جس کا انطباق راوی کی کہانی پر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ باپ جب شام کو رہیڑی لے کر لوٹتا ہے تو ماں کا دوڑ کر جانا اور اور سہارا دے کر رہیڑی کو آنگن میں مقررہ جگہ تک پہنچانا ۔ ۔ ۔ رہیڑی کھڑی کرتے ہی باپ کا فوراً دن بھر کی کمائی ماں کے ہاتھوں پر رکھ دینا اور ہر روز میٹھی گنڈیریاں بچا کر لانا تاکہ اس کے بیوی بچے بھی گنڈیریاں کھا سکیں ۔ ۔ ۔ ان سب کا اطلاق خود راوی کے کردار پر بھی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اور افسانے کا انتہائی خوب صورت اور پر اثر climax بنتا ہی اس لیے ہے کہ افسانے میں انطباقی ساخت کو اپنایا گیا ہے ۔ ۔ ۔ کہ پیسوں کی کتنی ہی سخت ضرورت کیوں نہ تھی ۔ ۔ ۔ اور ایک گجرے کے ۔ ۔ پانچ سو ۔ ۔ جی ہاں ۔ ۔ پانچ سو روپے ہی کیوں نہ مل رہے تھے ۔ ۔ ۔ باپ کی گنڈیریوں کی طرح ۔ ۔ ۔ بیوی کے لیے گجرے کا بچا کر لانا ۔ ۔ ۔ محبت کا کتنا خوب صورت پیرایئہ اظہار ہے ۔ ۔ ۔
– یہاں تک میں نے جو کچھ عرض کیا اس کی نوعیت بنیادی ہے ۔ ۔ لیکن اسی ساخت کے ذریعے ۔ ۔ اور اسی بہانے سے ۔ ۔ ۔ بہت سے socio-economic ایشوز پر جو گہری نظر ڈالی گئی ہے ۔ ۔ ۔ وہ بظاہر ایک بیانیہ کی رو ہے کہ بس قصے کے ساتھ چل رہی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن کیا ہم نے غور کیا کہ ان socio-economic ایشوز کو چھیڑنے ہی سے افسانے کے انجام میں دو ہزار واٹ کی روشنی اور طاقت آ گئی ہے ۔ ۔ ۔ پانچ سو روپے کے نوٹ کی لالچ اور temptation چھوڑنے کا ایسا Grand impact بنا ہی اس لیے ہے کہ انطباقی پلاٹ ۔ ۔ ۔ یعنی باپ کی سماجی اور معاشی صورت حال کی تفصیل کے ساتھ تنقیش کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ ذرا غور کیجے کہ راوی کہتا ہے ۔ ۔ ۔
” ابا کون سا پہلے سبھی چیزیں نئی استعمال کرتا تھا ۔ ۔ ۔ کتنی ہی بار اس نے لا تعداد استعمال شدہ چیزوں کے ساتھ بڑی خوشی سے گزارا کیا تھا۔ ۔ ۔ مجھے لگا ابے کو اتنی مشکل سے حاصل کی گئی استعمال شدہ قبر پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ ۔ ”
اب اس جملے سے زیادہ سماجی اور اقتصادی صورت حال پر اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ اور سماجی / معاشی صورت حال کا یہی عرفان افسانے کے انجام کے لیے لازمی ہے۔
بر سبیل تذکرہ مجھے یاد آیا کہ socio-economic صورت حال کا بیان ہمارے ترقی پسند افسانہ نگاروں کا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔ ۔ مجھے ترقی پسندی سے کوئی پرخاش نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن ” تاج محل ” پر لکھی گئی کچھ نظمیں ضرور یاد آتی ہیں ۔ ۔ ۔
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
۔ ۔ ۔ ذرا غور فرمائیں ۔ ۔ ان نظموں میں غریبوں کی محبت کے حوالے سے جو ویژن ۔ ۔ ۔ جو تناظر پیش کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔اور جاوید صاحب کے افسانے میں غریبوں کے حوالے سے جو محبت پیش کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کس کا تناظر درست اور وسیع تر ہے ۔ ۔ کہنا پڑتا ہے کہ ” آخری گجرا ” کے لیے ملنے والے پانچ سو روپیوں کا تیاگ ۔ ۔ ۔ تاج محل کی آج کی مجموعی قیمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔ یہ تو ایک جملئہ معترضہ تھا ۔ ۔ عرض کرنا یہ ہے کہ آخری گجرا میں سماجی اور معاشی صورت حال محض socio-economic جائزہ نہیں ہے ۔ ۔ بلکہ اس افسانے کی تخلیق کے لیے ناگزیر ہے۔
افسانے کے اس ساختیاتی تجزیے کے احاطے میں کچھ اور مسائل بھی زیر بحث آ سکتے ہیں ۔ ۔ مثلاً ہم اس افسانے کو محض راوی کے اپنے واقعات تک محدود رکھیں ۔ ۔ ۔ اور والدین کے حالات منہا کر دیں ۔ ۔ ۔ تو کیا افسانے کا وہی impact بنے گا جو کہ اس کی شمولیت سے بنا ہے ۔ ۔ ۔ میں نے اقتباس نمبر 1 اور 2 میں جو نکات بیان کیے ۔ ۔ انھیں بھول بھی جائیں ۔ ۔ تو کیا افسانے میں وہ تہہ داری باقی رہے گی , جو کہ اس وقت ہے۔
دوسری بات یہ کہ پانچ سو روپے کا ایثار اتنا بڑا اسی لیے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم راوی کی زندگی میں خود اس کی اپنی محرومیوں کے ساتھ اس کے والدین کی محرومیاں بھی شامل دیکھتے ہیں کہ راوی نے تو بچپن ہی سے انھیں دیکھا اور جھیلا ہے ۔ ۔ ۔ تو مصائب کا یہ دوگنا بوجھ افسانے کے انجام کو جذبات اور محسوسات کی سطح پر بھی دوگنا کر رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے والدین کی کہانی sub-plot نہیں بلکہ مین اسٹریم کا حصہ ہے۔
میں اس قدر عمدہ افسانے کی تخلیق پر جناب جاوید انور صاحب کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بہت شکریہ
محمد اکرم قاسمی
جاوید صاحب کا پہلا ہی افسانہ پڑھا ہے ، یقیناً بہت خوبصورت ہے زبان و بیان اور کردار نگاری کے حوالے سے جو لائق تحسین ہے۔ لیکن مجھ ایسے طالبعلم کا ذہن زبان کی حلاوت کے ساتھ ساتھ یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ افسانے میں زبان اور واقعات نگاری افسانے کے لیے کتنے معاون و مددگار ثابت ہوئے ہیں ؟ یا افسانے میں زبان اہم ہے یا واقع یا اُس کے اثرات ؟ یا اُن اثرات سے جنم لینے والے امکانات ؟ مذکورہ افسانے پر توصیفی کلمات لکھ دینا میرے لیے بھی بہت آسان ہے ایک جملے میں تعریفی کلمات کہہ کے کم از کم مصنف کے شکریہ کا خود کو حقدار بنا جا سکتا ہے لیکن افسانہ پڑھنے کے بعد معاملہ کچھ دوسرا پیش آ گیا ۔ بائرن کا ایک جملہ کہ” اگر لطف لینے کے لیے مجھے جسمانی اور ذہنی مشقت سے گزرنا پڑے تو میرے لیے وہ لطف رہتا ہی نہیں ”
تو عرض یہ ہے میرے حبیب آپ نے یقیناً ایک دلسوز کہانی کو ترتیب دیا ہے۔لیکن کہانی بیان کرتے ہوئے واقعات کو تضادات کی سطح پر لے گئے اور بھول گئے کہ افسانے کے منظر کو کیسے ترتیب دیا ہے ؟ اور اگے چل کر وہ منظر افسانے پر کیسے اثرات مرتب کرے گا ؟
آپ نے افسانے میں “رجو اور شہزادے ” کی شادی قبل چار لوگوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے (ماں ، باپ ، بہن اور خود شہزداہ ) اُن کی زبوں حالی کو درج ذیل عبارت میں بیان کیا ۔
” امی کی کڑھائی سے اکٹھی کی گئی رقم بھی ختم ہو جاتی تو ہمیں پتہ چل جاتا کہ کل ناشتے میں دھی نہیں ملے گا اور پراٹھے کی جگہ خشک روٹی ہوگی ۔ وہ بھی شائد رات کی بچی ہوئی ، باسی ۔ ہمیں اس صورت حال سے سمجھوتہ کرنے کی عادت ہو گئی تھی ۔ ہم جانتے تھے کہ بس یہی کچھ ممکن تھا جو ابا اور اماں جان مار کر ہمیں مہیا کر سکتے تھے۔ وہ نہ ہم سے کچھ چھپاتے تھے اور نہ بچاتے تھے”
درج بالا عبارت یہ عیاں کرتی ہے کہ باپ کی کمائی چار لوگوں کی ضروریات کے لیے ناکافی تھی ، اور ماں کو کڑھائی سے حاصل ہونے والا پیسہ بھی معمول کی ضرورت پر خرچ کرنا پڑتا تھا ، بعض دفعہ ماں کی جمع شدہ رقم بھی گھر کے ہی اخراجات پر ختم ہو جاتی ( یہاں پس منظر میں باپ معمول کا ہی کاروبار کر رہا ہے ) تو گھر کا گھر معمول کے ناشتے سے محروم ہو جاتا اور اُسے خشک اور باسی روٹی پر اکتفا کرنا پڑتا ۔۔۔ اسی عبارت کا آخری جملہ ” وہ نہ ہم سے کچھ چھپاتے تھے اور نہ بچاتے تھے ” بھی غور طلب ہے اور یہ آگے چل کر خود ظاہر کرے گا کہ کیوں اِس پر غور کیا جانا چاہیے؟ فی الحال مجھے اس سے غرض ہے کہ باپ اور ماں کے ہوتے ہوئے بھی خاندان کے پاس معمول کی ضروریات پوری کرنے علاوہ اگر جمع شدہ رقم کو ایک خاص اندازے پر ٹھہرایا جا سکے تو بھی ایسی نہ تھی جو قابل ذکر ہو ۔۔۔۔۔
اِس کے بعد والد کی وفات کے بعد تو آمدن کا ایک ذریعہ بالکل مقفل ہو جاتا ہے مزید ایک ذریعہ رہ جاتا ہے ماں کی شکل میں اُسے مصنف بیمار کر دیتے ہیں، چلیں فرض کر لیں کہ بیماری کی حالت میں بھی بیچاری کڑھائی کرتی رہی ، با لآخر ” ابے کے جانے کے ٹھیک دو مہینے اور چار دن بعد اماں بھی رخصت ہو گئی “۔ مزید فرض کر لیا کہ ” باپ ” اور ” ماں ” کی وفات کے بعد کے ” قل ” دسواں ” چالیسواں ” تک کچھ اخراجات کے انتظامات باپ کے دوستوں نے کیے کچھ شہزادے نے مانگ تانگ کر پورے کیے ، حالانکہ یہ فرض کرنا بے جا ہے کیونکہ کردار کی زبان سے ادا ہونی والی درج ذیل عبارت خود اِس فعل کی نفی کرتا ہے ۔۔
“”اماں کا چالیسواں بھی گذر گیا ۔ ہمارے ہاں مرگ گھر والوں کے لئے مالی بوجھ ہی بنتی ہے ۔ رشتے دار ہاتھ بٹانے کی بجائے اخراجات کا باعث بنتے ہیں ۔ کفن ، قبر، مولوی صاحب ، قُل ، دسواں اور چالیسواں۔ پھر جس گھر میں اوپر تلے دو اموات ہو جائیں ، اور رخصت بھی وہ ہوں جو بنیادی ستون ہوں ، جن پر مکمل گھر ٹکا ہو تو آپ اندازہ لگائیں کہ باقی کیا بچے گا۔””
قاری تو ساری عبارت میں یہی اندازہ لگائے بیٹھا تھا البتہ یہ جملہ جس میں آف شور کمپنی کی طرح ماں کی آہنی صندوقچی نکل آئی کنفیوز کرتا ہے ؟ ” اماں کی آہنی صندوقچی سے بچے کھچے پیسے لے کر صبح ہی صبح سبزی منڈی پہنچ گیا ” یعنی آپ متن کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے موڑ رہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچ رہے کہ آپ نے گھرانے کا نقشہ پہلے کیسا ترتیب دے رکھا ہے ۔۔۔کم از کم اس کی عقلی و منطقی توجیہہ ہو تو ضرور جاننا چاہوں گا ۔۔ کہانی کا اختتام بھلا لگا جو باپ سے مستعار لیا گیا ، یقیناً باپ کی محبت و احترام میں یہ ایک اچھی ادا ہے ۔ لیکن عقلی بنیادوں پر اُس کی معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے ” کردار ” کا یہ عمل بھی قابلِ گرفت ہے ، جس کا بہر طور افسانہ نگار ہی ذمہ دار ہے ۔۔ لیکن بعض چیزوں میں افسانہ نگار کے لیے گنجائش ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
میری طرف سے بہت دعائیں اور ایڈوانس چشنِ آزادی مبارک ۔۔! پروردگار آپ کو ہمیشہ اپنے سایہء عاطفت میں رکھے اور کامیابیاں عطا فرمائے آمین
معراج رسول رانا
افسانہ پڑھا اور دو مرتبہ پڑھا۔
افسانے کا آغاز ایسا ہوا کہ کئی جگہوں پر لب پر مسکراہٹ آگئی۔ جاوید صاحب کے اندازِ تحریر میں اس قدر اپنا پن ہے گویا یوں لگا جیسی کوئی ماں لاڈ سے مجھے کوئی بات کہہ رہی ہو۔ بہت کھرا انداز اور خوبصورت۔
افسانہ آگے بڑھا، کہانی عمومی ہوگئی، میرے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہونے لگی اور ایک گمان ہونے لگا کہ کہیں یہ وہی عمومی مضمون تو نہیں جو کہ کئی مرتبہ برتا جاچکا ہے؟ کہ غریب ماں باپ کا غریب بیٹا جس نے باپ کی غربت کی کرسی سنبھال لی؟ خیر میں آگے بڑھا۔
اور اختتام نے دل جیت لیا۔ مجھے ایسے افسانے پسند ہیں جن میں آخر میں دل خوش ہو، خون بڑھے، بلکہ اس افسانے کا اختتام پڑھ کر دل جھوم اٹھا اور میں نے پھر یہ افسانہ اپنے دوست کو پڑھ کر سنایا (شاید خود دوبارہ حظ لینے کیلئے)
زبان خوبصورت، انداز کھرا، کہانی بیشک عمومی لیکن جس قدر اپنے پن میں لکھی گئی، برتی گئی، اور ختم ہوئی اُس نے واقعی مسحور کردیا،
انور صاحب کو بہت داد
ایک بات یہاں کہنا چاہتا ہوں۔
میری رائے میں افسانے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ افسانہ جو کسی مسئلے کی وجہ سے لکھا جاتا ہے، وہ مسئلہ جو دماغ میں کہیں بیدار ہوتا ہے اور افسانے میں ظاہر ہوجاتا ہے، اور ایک اِس طرح کا افسانہ جو جاوید صاحب نے لکھا، جس میں کوئی مسئلہ زیرِ بحث نہیں لیکن نفسیاتی رو ضرور موجود ہے، اور ایک منظر یا کیفیت یا زندگی کا بیان ہو۔ دونوں طرح کے افسانوں میں اپنی بات ہوتی ہے، اپنا لطف ہوتا ہے۔
میں اگر اپنی بات کروں تو میں ہمیشہ افسانہ تب لکھتا ہوں جب میرے اندر کوئی مسئلہ جنم لے، کوئی چیز مجھے تنگ کرے، میرے ذہن کو بیزار کرے۔ پھر وہاں سے میں افسانہ شروع کرتا ہوں۔ ایسا افسانہ انسانی نفسیات کے کسی مسئلہ کو تو بیان کردیتا ہے لیکن عمومی زندگی سے یا تو پرے ہوتا ہے یا زندگی کے ایسے حصے کو بیان کرتا ہے جسے ہم انگریزی میں grey area کہتے ہیں۔
“آخری گجرا” دوسری قسم کا افسانہ ہے جس میں زندگی کا بیان ہے۔ ایسے افسانے پڑھ کر لوگ خود اپنے آپ کو کردار سمجھنے لگتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں یا یہ شخص ہم نے کہیں دیکھ رکھا ہے یا ہم اس سے مل چکے ہیں۔ ایسے افسانوں کو میں زندہ افسانے کہہ سکتا ہوں کیونکہ وہی بات کہ یہ زندگی کا بیان ہوتے ہیں۔
انور صاحب کو بارِ دگر داد
نسیم سید
اگر سارا دن رزق کے کھیت میں پانی دینے کے بعد کوئ گنڈیریوں جیسی تخلیق میسر آ جائے تو کیسا فرحت بخش احساس ہوتا ہے ۔۔ شایدی بیان کرنا مشکل ہے ۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے اور افسوس بھی کہ ایسے منجھے ہوئے تخلیق کار کا یہ دوسرا افسانہ پڑھ رہی ہوں کل ایک کسی دوسری فورم پرپڑھا تھا شاید ۔ ابھی تک اس افسانے کی تکون نے مجھے تین طرف سے گھیرا ہوا ہے ارادہ اسی پر تبصرے کا تھا مگر یہ افسانہ سامنے آ گیا ۔ نمائشی لوازمات سے پاک سیدھی سادھی زندگی اورکھری محبتوں کواس قدر خوبصورتی سے ۔ ایسی مہارت سے ۔ اور بے پناہ دلنیش اندا ز میں یوں تصویر کردیا ہے کہ ایک لمحہ کو طوالت کے باوجود دل اکتا تا نہیں ۔ ایک لا ابالی غریب شہرزادہ جس منظر کا چا ہتا ہے جادو کی چھڑی سے چھوکے جیسے زندہ کرتا چلا جارہا ہو۔ محبت اگرپیسے اورحسن کی محتاج ہوتی تو لیڈی ڈایانا ایسی تنہا نہ ہوتی جیسی وہ تھی ۔یہ خالص محبتیں وراثت میں اولاد کو کچھ اور نہیں دے سکیں لیکن زندگی کرنے کا اہم تریں گرعطا کرکے انہیں کسقدرشاہانہ زندگی دے دی ۔ بہت اہم بات کس قدر سا دہ لہجے میں اور کسقدر تفصیلی جزیات نگاری سے جتا ئ گئ ہے کہ بچوں کو محبت کرنا سکھا یا نہیں جاسکتا بلکہ دکھایا جاتا ہے کہ محبت کیسے کی جاتی ہے ۔ بگڑا ہوا شہزادہ اپنی وراثت کا منظر آ خری سطور میں کس سطورت سے پیش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ واہ کیا کہنے ۔ بہت ہی دلنیش ا فسانہ

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں